ٹرمپ کی دھمکی: ایشیائی تارکین وطن کی بڑی تعداد کہاں منتقل ہورہی ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ازبکستان، چین، افغانستان، روس اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے خاندانوں اور بچوں کا ایک گروہ امریکا سے کوسٹاریکا پہنچ گیا ہے۔ یہ غیر ملکی تارکین وطن کا پہلا گروپ ہے جسے کوسٹاریکا نے ٹرمپ انتظامیہ کے تحت حراستی مراکز میں رکھنے کی رضامندی ظاہر کی تھی، جب تک کہ ان کی اپنے اپنے وطن واپسی کے انتظامات مکمل نہیں ہو جاتے۔
خبررساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق 135 تارکین وطن میں سے نصف نابالغ ہیں۔کوسٹاریکا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ذریعے ملک بدری کی کارروائیوں میں تیزی لانے کی کوششوں کے دوران تارکین وطن کے لیے ایک اسٹاپ اوور کے طور پر کام کر رہا ہے۔
کوسٹاریکا اور پاناما مل کر ایشیائی ممالک کے تارکین وطن کو ان کے واپس جانے کے انتظامات تک حراست میں رکھیں گے یا انہیں کہیں پناہ لینے کا موقع فراہم کرٰں گے۔ ہونڈوراس نے بھی گوانتانامو بے سے آنے والی پرواز سے امریکی اور وینیزویلا کے تارکین وطن کو منتقلی کی سہولت فراہم کی۔
کوسٹا ریکا پہنچنے والے تارکین وطن کو پاناما کی سرحد کے قریب ایک دیہی حراستی مرکز میں منتقل کیا جائے گا، جہاں انہیں 6 ہفتوں تک حراست میں رکھا جائے گا اور پھر انہیں اپنے اپنے ملک واپس بھیجا جائے گا۔ کوسٹاریکا کے نائب وزیر داخلہ نے بتایا کہ امریکی حکومت ان اخراجات کو پورا کرے گی۔
یہ انتظام ایک معاہدے کا حصہ ہے جو ٹرمپ انتظامیہ نے اس ماہ کے شروع میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے کوسٹا ریکا کے دورے کے دوران کیا تھا۔ اس کے تحت ٹرمپ نے خطے کے ممالک پر دباؤ ڈالا ہے تاکہ وہ ملک بدری میں مدد فراہم کریں تاکہ وہ بھاری ٹیکسوں یا پابندیوں کے خطرے سے بچ سکیں۔
اسی طرح کے معاہدے دیگر لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ بھی کیے گئے ہیں، لیکن تیسرے ممالک کو ملک بدری کے اسٹاپ اوور کے طور پر استعمال کرنے کے خیال پر انسانی حقوق کے علمبرداروں نے شدید تنقید کی ہے۔
پاناما اس ہفتے ایسا پہلا ملک بنا جس نے دیگر ممالک کے 299 تارکین وطن کو قبول کیا، جنہیں پولیس کی نگرانی میں ہوٹل کے کمرے میں رکھا گیا تھا۔ ان میں سے ایک تہائی افراد، جنہوں نے اپنے ملک واپس جانے پر رضامندی ظاہر نہیں کی، کولمبیا کی سرحد کے قریب دارین صوبے کے ایک دور دراز کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا۔ باقی افراد اپنے ملک واپس جانے کے لیے پروازوں کا انتظار کر رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *