13 برس سے نشہ کر رہا ہوں اور۔۔ مصطفیٰ اور ساجد حسن کا بیٹا کون سا نیٹ ورک چلا رہے تھے؟ تفتیشی حکام کے سامنے بیان

کراچی (قدرت روزنامہ)کراچی میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تحقیقات جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہیں، ویسے ویسے ہوشربا انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ یہ کیس صرف ایک قتل کی تفتیش تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے تار ایک وسیع اور پیچیدہ منشیات نیٹ ورک سے جڑتے نظر آ رہے ہیں۔ دوسری جانب، اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کو بھی منشیات کے مقدمے میں عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں تفتیشی حکام نے مزید ایک روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ مقتول مصطفیٰ عامر اور ملزم ساحر حسن کے درمیان تعلقات ارمغان کے ذریعے استوار ہوئے تھے، جس نے انہیں ایک دوسرے سے متعارف کرایا تھا۔
اب یہ معاملہ صرف قتل کی حد تک محدود نہیں رہا، بلکہ منی لانڈرنگ اور سائبر کرائم کے پہلوؤں سے بھی اس کی جانچ شروع ہو چکی ہے۔ ایف آئی اے نے بھی اس کیس میں مداخلت کر لی ہے اور منشیات کے لین دین میں مبینہ مالیاتی دھاروں کی کھوج لگا رہی ہے۔ دوسری طرف، اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) نے اس نیٹ ورک کے مزید کرداروں پر روشنی ڈالتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی میں تین بڑے ڈرگ ڈیلرز سرگرم تھے، جن میں مصطفیٰ عامر، ساحر حسن اور عثمان سواتی شامل تھے۔
تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ منشیات صرف مقامی سطح پر فروخت نہیں کی جاتی تھیں بلکہ ان کے ڈانڈے بین الاقوامی اسمگلنگ مافیا سے ملتے تھے۔ اسلام آباد میں بیٹھا ایک شخص ڈارک ویب کے ذریعے منشیات کا آرڈر دیتا تھا، جس کے بعد لاہور اور اسلام آباد میں کنسائمنٹ اترتی، پھر کورئیر کمپنیوں کے ذریعے کراچی بھیجی جاتی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ زہر لوگوں تک پہنچانے کے لیے عام کورئیر سروسز جیسے ٹی سی ایس اور ایل سی ایس کو بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔
تفتیشی حکام کے مطابق کراچی میں تین اقسام کی چرس فروخت ہوتی تھی۔ مصطفیٰ عامر ’’جنگل بوائے‘‘ نامی ویڈ کا کاروبار کرتا تھا، ساحر حسن ’’جیلیٹو اور مامیلا‘‘ جبکہ عثمان سواتی ’’ایرانی ویڈ‘‘ بیچتا تھا۔ تاہم، ان تینوں میں سے دو پہلے ہی دنیا سے جا چکے ہیں۔ مصطفیٰ عامر قتل ہو چکا، عثمان سواتی ایک حادثے میں مارا گیا، اور اب پورا نیٹ ورک صرف ساحر حسن چلا رہا تھا۔
عدالت میں دیے گئے بیان میں ساحر حسن نے اعتراف کیا کہ وہ 13 سال سے چرس کا نشہ کر رہا ہے اور پچھلے دو سال سے اس کا کاروبار بھی کر رہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اور اس کے ساتھی بازل اور یحییٰ مل کر یہ دھندا چلاتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ہر ہفتے چار سے پانچ لاکھ روپے مالیت کی چرس اسے گھر پر ڈیلیور کی جاتی ہے، اور وہ ہر ماہ 1200 گرام چرس فروخت کرتا ہے۔ حیران کن انکشاف یہ بھی ہوا کہ وہ زیادہ تر ادائیگیاں نقد وصول کرتا تھا، لیکن اگر رقم بڑی ہو تو وہ اپنے والد کے منیجر مکرم کے اکاؤنٹ سے ٹرانسفر کرواتا تھا۔
سب سے سنسنی خیز بات یہ تھی کہ ساحر حسن کے 12 مستقل گاہک تھے، اور ان میں سے ایک مقتول مصطفیٰ عامر کا قاتل، ارمغان، بھی شامل تھا۔ ا