پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت اور افغانستان ملوث ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
ٹرین حملے کے آپریشن کے دوران ایک بھی مغوی نہیں مارا گیا،نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل ہوتا تو یہ واقعہ نہ ہوتا

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)بلوچستان میں جعفر ایکسپریس ٹرین حملے پر ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ہمراہ اہم پریس کانفرنس جاری ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر جعفر ایکسپریس واقعے کے آپریشن کی تفصیلات پیش کررہے ہیں، آپریشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا بھی بتارہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کا واقعہ انتہائی دشوار گزار راستے میں پیش آیا، دہشت گردوں نے انتہائی منظم کارروائی کی اور انتہائی دشوار گزار راستے کا انتخاب کیا، ٹرین واقعے سے قبل دہشت گردوں نے ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا جبکہ ٹرین پر حملے کے بعد مسافروں کو اتار کر ٹولیوں میں تقسیم کیا جب کہ بھارتی میڈیا پورے واقعے کی مس رپورٹنگ کرتا رہا۔
اس موقع پر آئی ایس پی آر نے بھارتی میڈیا کی جانب سے واقعے کی مس رپورٹنگ کی ویڈیوز پیش کیں اور کہا کہ ایک دہشت گرد تنظیم کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو کو بار بار انڈین میڈیا نے چینلز پر دکھایا، کچھ پرانی ویڈیو بھی دکھائیں جس کا فیکٹ چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کچھ ویڈیو پرانی ہیں اور کچھ جعلی ویڈیوز اے آئی کے ذریعے بنائی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 11 مارچ کو ایک بجے کے قریب دہشت گردوں نے آئی ڈی دھماکے کے ذریعے پٹڑی تباہ کرکے ٹرین کو روکا، ہمارے ایف سی اور آرمی کے جوانوں نے علاقے کا محاصرہ کیا ہوا تھا، دہشت گرد ٹولیوں کی شکل میں لوگوں کو لے کر باہر موجود تھے، دہشت گردوں پر ہماری اسنائپرز کی ٹارگٹڈ فائرنگ کے نتیجے میں ایک منظر نامہ بنا اور اس صورتحال میں مغویوں کو وہاں سے فرار ہونے کا موقع ملا۔ انہوں نے اس کی ایک ویڈیو بھی پیش کی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ آپریشن بہت احتیاط کے ساتھ کیا گیا، ہمارے اسپیشل سروسز گروپ ضرار گروپ نے مغویوں کو خودکش بمبارز سے نجات دلائی جو کہ ٹولیوں کی شکل میں موجود لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے، چوبیس گھنٹے سے وہ یرغمال تھے، فوجی جوانوں نے بڑی پلاننگ کے ساتھ دہشت گردوں کو انگیج کیا اور لوگوں کو چھڑایا، دہشت گرد افغانستان میں موجود اپنے ہینڈلرز سے مسلسل رابطے میں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایک گروپ نے بچوں اور خواتین کو ٹرین کے اندر رکھا، دہشت گردوں نے چوکی پر حملہ کرکے تین ایف سی جوان شہید کیے، دہشت گردوں کے پاس بیرون ملک کا اسلحہ بھی موجود تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس پورے آپریشن کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں کسی ایک مغوی کی بھی جان نہیں گئی، انتہائی مہارت، احتیاط اور پروفیشنل ازم کے ساتھ آپریشن کیا گیا کہ کچھ نہ کرسکے، جو مسافر شہید ہوئے وہ کلیئرینس آپریشن سے قبل شہید ہوئے، 24 گھنٹے سے لوگ مغوی بنے ہوئے تھے وہ دہشت گرد اپنی دہشت قائم کرنے کے لیے ظلم کرتے ہوئے لوگوں کو شہید کرتے گئے، کچھ نے بھاگنے کی کوشش کی تو دہشت گردوں نے کچھ لوگوں پر فائرنگ بھی کی تاہم فائنل آپریشن میں کوئی مسافر شہید نہیں ہوا، پہاڑ پر بیٹھے ان کے ایک اسنائپر کی جانب سے ضرار کمپنی پر ایک فائر آیا ہمارا ایک جوان اس سے زخمی ہوا۔
پریس کانفرنس میں ٹرین ڈرائیور سمیت بچ جانے والے مسافروں کے ویڈیو بیانات بھی پیش کیے گئے جس میں مسافروں نے دہشت گردی کے واقعے اور فوجی آپریشن سے متعلق بیانات دیے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس وقت بھی جائے وقوع کے اطراف میں پہاڑیوں اور غاروں کی سینی ٹائزیشن جاری ہے، یہ بات پیش نظر رہے کہ ٹرین ہوسٹیج میں 36 گھنٹے کے اندر ایک انتہائی دور افتادہ جگہ ناقابل رسائی جگہ میں کامیاب کارروائی کی گئی جہاں خودکش بمبار بھی موجود تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس واقعے کا لنک افغانستان سے ملتا ہے وہاں سے جو ٹیمیں آتی ہیں اس میں افغانی ہوتے ہیں، خودکش بمبار آتے ہیں وہ افغانی ہوتے ہیں۔ انہوں ںے تین دہشت گردوں کی تصاویر دکھائیں اور بتایا کہ حال ہی میں خارجی بدرالدین پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہوئے مارا گیا یہ افغان صوبے باغدیس کے نائب گورنر کا بیٹا ہے، اسی طرح مارا گیا خارجی مجیب الرحمان افغان آرمی میں بٹالین کمانڈر تھا جو یہاں دہشت گردی کرتا ہے، بنوں واقعے میں بھی افغان دہشت گرد مارے گئے۔
اس موقع پر پاکستانی حراست میں موجود بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو کے دوران حراست پاکستانی میں دہشت گردی سے متعلق دیے گئے بیانات میڈیا کے سامنے پیش کیے گئے، مختلف بھارتی عہدے داروں کے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے بیانات پیش کیے گئے، گرفتار ہوئے بلوچ رہنماؤں اور کارکنوں کے بیانات پیش کیے گئے جس میں انہوں نے بھارتی دہشت گردی کا اعتراف کیا۔
انہوں ںے کہا کہ جعفر ایکسپریس حملے کا مرکزی اسپانسر بھارت ہے جو پاکستان میں پہلے بھی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہا ہے اور آج بھی اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل درآمد کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں
سوالات کا سیشن شروع ہوا تو ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 2014ء کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جسے بعد میں ریوائس بھی کیا گیا اور تمام اسٹیک ہولڈرز نے 14 نکات پر اتفاق کیا یہ نکات عزم استحکام پاکستان میں شامل ہیں یعنی یہ چودہ کام کیے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا ان پر عمل کیا جائے۔
انہوں ںے کہا کہ ان میں سے ایک پوائنٹ ہے کہ کسی ملٹری آرمڈ گروپ کو یہاں آپریٹنگ کی اجازت نہیں دی جائے گی، دوسرا پوائنٹ ہے کہ دہشت گردی کے پھیلاؤ کو میڈیا کے ذریعے روکا جائے گا جس میں میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں شامل ہیں، ٹیررفنانسنگ روکی جائے گی، دہشت گردی کے مقدمات میں جیوڈیشری کو تیز کیا جائے گا، کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی استعداد میں اضافہ کیا جائے گا، مدارس کی ریگولیشن اینڈ رجسٹریشن کی جائے گی، ان پوائنٹس پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔
انہوں ںے کہا کہ اس وقت ماہ مارچ جاری ہے اور ہم اس سال اب تک گیارہ ہزار 654 آپریشن کرچکے ہیں، ایوریج نکالیں تو یہ تعداد 180 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن یومیہ بنتی ہے، 2024 اور 2025ء کے دوران 1250 دہشت گرد مارے جاچکے ہیں، 563 ہمارے جوان شہید ہوئے، دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی ادارے مکمل فعال ہیں اپنی جانیں دے رہے ہیں مگر ان 14 نکات پر عمل نہیں ہورہا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی وجہ سے دہشت گردوں کو سپورٹ مل رہی ہے، افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز ہیں وہاں ان کی لیڈرشپ موجود ہے، دہشت گردی وہاں تیار ہوتے ہیں اور بھرتی ہوتے ہیں، امریکا جب افغانستان سے گیا تو اپنا اسلحہ چھوڑ گیا جو ان کے پاس ہے، ریاست اس وقت اسمگلنگ کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کررہی ہے ڈالرز، کرنسی، پیٹرول، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور دیگر اشیا کی اسمگلنگ روکی جارہی ہے جو کہ بلین ڈالرز میں ہے اور مافیاز نہیں چاہتے کہ ان کا کام بند ہو وہ اتنے عرصے سے آزادی کے ساتھ ملک کو کھوکھلا کرنے میں لگے تھے انہیں روکا جارہا ہے تو وہ مزاحمت کررہے ہیں۔
لاپتا افراد کے سوال پر وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ کوئی لاپتا ہوتا ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے تلاش کرے لیکن یہ طے کرلینا کہ حکومت نے انہیں لاپتا کیا ہے تو یہ پروپیگنڈا ہے، کیا دنیا میں کسی اور ملک میں کہیں کوئی اور لاپتا نہیں ہوتا؟ ترقی یافتہ ممالک میں بھی دیکھا جائے کہ وہاں لاپتا افراد کی تعداد کتنی ہے، امریکا اور برطانیہ میں کتنی ہے؟ یہ ایشو کے پی کے میں بھی ہے لیکن بلوچستان کو ہی ایشو کیوں بنایا جاتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ اس ٹرین میں موجود آرمی، سیکیورٹی اور پولیس اہلکار بغیر اسلحے کے تھے انہیں فوجی نہیں مسافر تصور کیا جائے وہ سفر پر تھے وہ متاثرہ فریق ہیں ان کی وائس بہت کم ہے اور دوسری وائسز بہت زیادہ ہیں، یہ نظریہ بنایا جارہا ہے کہ حکومت پاکستان نے ایسا کچھ کیا تو جواب میں یہ واقعہ ہوا، ایسا نہیں ہے دہشت گردوں کا ایک ہی مقصد ہے ملک کو توڑنا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ لاپتا افراد پر کمیشن بنا ہوا ہےاس کمیشن کے پاس 10 ہزار 405 کیسز لائے گئے اس میں سے 8044 کیسز حل ہوگئے، 2261 کیسز زیر تحقیقات ہیں، بلوچستان کی بات کریں تو وہاں 2011ء سے اب تک 2911 کیسز رپورٹ ہوئے اس میں سے صرف 452باقی ہیں بقیہ حل ہوچکے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا مسنگ پرسنز کا مسئلہ امریکا میں نہیں؟ یوکے اور بھارت میں بھی یہ مسئلہ ہے مگر کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنی حکومت اور افواج پر چڑھ دوڑیں۔
ایک سوال پر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بی ایل اے اور افغانستان کے دہشت گرد دو الگ الگ گروپ ہیں ان کی نظریات بھی الگ ہیں گر مگر انہیں اکٹھا کون کررہا ہے؟ انہیں ٹریننگ دے کر، پیسے دے کر پاکستان کے خلاف اکٹھا کیا جاتا ہے، ہینڈلر انہیں اکٹھا کرتے ہیں، افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی ہم نے ہمیشہ افغانستان کی مدد کی لاکھوں مہاجرین کو بسایا مگر انہوں ںے ہمارے ہاں دہشت گردی کی، افغانستان اپنے وعدے پورے نہیں کررہا اور پاکستان کے خلاف کسی اور ملک کی پراکسی بنا ہوا ہے۔
واقعے کا پس منظر
واضح رہے کہ 11 مارچ کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر حملے اور 440 مسافروں کو یرغمال بنانے کے بعد کلیئرنس آپریشن میں 33 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 21 مسافر اور جوان شہید ہوگئے۔
ٹرین صبح ساڑھے نو بجے کوئٹہ سے روانہ ہوئی، جب ٹرین گڈالار اور پیرو کنری کے علاقے سے گزری تو وہاں نامعلوم مسلح افراد نے ٹرین پر فائرنگ کر دی۔
دہشت گردوں نے پہلے یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا، جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔