پشتونوں اور بلو چوں کوختم کر نیوالوں کی آج دنیا میں نا م ونشان نہیں ،محمو دخا ن اچکزئی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)پشتون بلوچ آج بھی اپنے اپنے تاریخی وطنوں پر آباد ہیں، کوئی بھی غلط فہمی میں نہ رہے ،گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ویڈیو میں ایک نوجوان نے یہ کہا تھا کہ عید کے بعد پشتونوں اور بلوچوںپر ایسا آپریشن کیا جائیگا کہ ان کی نسلیں تباہ ہوجائینگی۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پشتونوں اور بلوچوں کو ختم کرنیوالوں کی آج دنیا میں نام ونشان مٹ چکا ہے ۔پاکستان ہمارا ملک ہے یہاں نہ کوئی فاتح نہ نہ کوئی مفتوح ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ 75سالوں میں نہ پنجابی پشتو سیکھ سکھا نہ سندھی سرائیکی بلوچ ایک دوسرے کی زبان سیکھ سکھے۔ہم مختلف قوموں کو اس ملک میں صرف ایک چیز نے اکٹھے رکھا ہے اور وہ آئین ہے لیکن آج لوگ اس کا مذاق اڑارہے ہیں اور اسے چھیڑ ا جارہا ہے ۔ دفعہ 144کی خلاف ورزی پر سندھی ، پنجابی ، پشتون ، بلوچ سینکڑوں لوگ مارے جاچکے ہیں لیکن آئین کی خلاف ورزی کرنا آئین کا مذاق اڑانا آئین کو درخور اعتناء نہ سمجھنا آئین کو معطل کرنا یہ سب جاری ہے۔کسی کو ایک دن سزا نہیں دی گئی ۔ یہ معیار چلنے کے قابل نہیں ۔ پاکستان ایک فیدریشن ہے اس کا ایک آئین ہے اس آئین پر عملدرآمد کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔ ان خیالات کا اظہار پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین وتحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے زیر اہتمام گرینڈ افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ایک بات مشکل بھی ہے اور ضروری بھی ، ہمیں یہ بات ماننی پڑیگی کہ ہم اپنی غلطیوں کی وجہ سے 1990ء کی دہائی میں پرائے جنگوں میں کود پڑے اور ہم نے اپنے ملک کو دنیا جہاں کے دہشتگردوں کے لیے مرکز بنادیا ۔ کرنل امام اور ایک دوسرے پنجابی تارڑ کا لکھا ہوا ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہم نے 90ہزار انسانوں کو دہشتگردی کی تربیت دی اور وہ دہشتگردی بڑے بڑے پُل ، عمارتیں اڑانا، ٹینکوں کے نیچے آنا بم رکھنا ، سٹنگرمیزائل ، بم بنانا اور لوگوں کو مارنا تھا ۔دنیا کا یہ مسلمہ قانون ہے کہ جب کوئی بڑھی ، کوئی لوہار ، کوئی ترکان یا کوئی بھی کاریگر اپنے شاگردوں کا رجسٹر بناتا ہے کہ فلاں بچہ یہ چیز بناسکتا ہے فلاں شاگرد یہ بناسکتا ہے لیکن ہم نے 90ہزار انسانوں کو بدترین دہشتگردی کی ٹریننگ دی لیکن رجسٹرنہیں بنائی یعنی ہم نے چلتے پھرتے خطرناک انسانوں کو دنیا میں چھوڑ دیا جو بھی جس مسلک کا ٹرینڈ تھا انہوں نے اس مسلک کا مدرسہ بنایا ۔ہمیں باقاعدہ لسٹیں بنانی چاہیے تھی اور جن جن ممالک کے لوگ تھے اُنہیں بتادینا چاہیے تھا کہ یہ آپ کا فلاں شہری سٹینگر مزائل چلاسکتا ہے ، فلاں ٹینک چلا سکتا ہے تاکہ وہ لوگ اپنے لوگوں کو سنبھال لیتے اور ان کا علاج کرتے ۔ اب ہم رونا رو رہے ہیں ۔ہم نے دہشتگردی کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنی ہے۔دہشتگردی کے تمام اقسام کی مذمت کرنی ہے یہ ایک فرد کرے ،ایک فرقہ کرے یا دہشتگردی ایک ریاست کرے وہ قابل مذمت ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ عمران خان اچھا تھا یا بُرا آپ کو پہلے سے انکا سب کچھ کا پتہ تھا۔ کہاں پیدا ہوئے کہا ؟تعلیم حاصل کی کہاں بڑھے اگر وہ اتنے بُرے تھے تو آپ نے کیوں اُنہیں وزیر اعظم بنایا ؟اور اب جب وہ پورے ملک میں بھاری اکثریت سے الیکشن جیت چکے تو آپ نے انہیں جیل میں ڈالا ہے۔وردی پوش اداروں نے رات 9بجے کے بعد جینوئن الیکشن میں جیتنے والے امیدواروں کو ہرا کر باہر کیا اور دو نمبر لوگوں سے پیسے لیکر کامیاب کراتے رہے۔ جب ملک میں انٹیلی جنس ایجنسیاں وردی پوش جرنیل ، کرنل لوگوں کے انتخابات میں مداخلت کرینگے تو بالاآخر ملک کی یہی حالت تو بنے گی جب آپ ملک بکائو مال کے حوالے کرینگے اور ان لوگوں کو جو اپنے وطن اپنی مٹی کے لیے تن من سب کچھ قربان کرسکتے ہیں انہیں آپ پیچھے دھکیلتے ہیں تو کل اگر بکائو مال کو امریکہ یا کسی اور نے آپ سے زیادہ پیسے دیئے تو پھر تمہارا کیا بنے گا۔جس کو آپ نے ایک لاکھ ڈالر کے عیوض خریدا ہے وہ امریکہ سے دو لاکھ ڈالر لے کے پاکستان بھیچ دے گا۔ اس قسم کے لوگوں کو آپ پاکستان کا نمائندہ بناکر پیش کرتے ہیں پھر ہم جیسے بے کار لوگوں سے خواہش رکھتے ہیں کہ ہم آپ کو سپورٹ کریں یہ ناممکن ہے۔آئین میں غدار کی تعریف واضح ہے کہ غدار کون ہے غدار وہ ہے جو آئین کو معطل کرتا ہے آئین کو نہیں مانتا یا آئین کو چھیڑتا ہے اور وہ بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے جو ان کام کرنیوالوں کا ساتھ دیتے ہیں۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ کل جب بیرسٹر گوہر صاحب نے ٹرین کے واقعہ پر کہا تھا کہ پاکستان کو زخم لگا میں بیرسٹر گوہر کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو زخم اُس دن لگا جب آپ کا مینڈیٹ چھینا گیا وہ سب سے بڑا زخم تھا اور یہ زخم وردی پوش لوگوں نے دیا اس ملک کو یہ زخم ایجنسیوں نے دیا ہے۔اگر ہم نے اس ملک کو بچانا ہے تو اُسی تنخواہ پہ کام کرنا ہے تو یہ کام چلنے والا نہیں ہے ۔ میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے لیکن جب ایجنسیاں دو نمبر کے لوگوں کو لائیگی تو میں تجویز کرتا ہوں تحریک انصاف والوں سے کہ یہ ناجائز حکومت ہے ہمیں دنیا کے تمام سفارت کاروں کو کہنا پڑیگا کہ جو بھی معاہدہ اس ناجائز غیر آئینی حکومت کے ساتھ آپ کرینگے پاکستانی عوام اس کے پابند نہیں ہیں۔نہ ہم آئی ایم ایف نہ ورلڈ بنک کے قرضے کے ذمہ دار ہیں ۔ نہ ہم کسی بھی اس ملک کے معاہدے کے پابند ہیں جنہوں نے اس غیر قانونی غیر آئینی ناجائز اور چور حکومت کے ساتھ کیئے ہوں۔ کوئی اخلاقیات ہوتی ہیں ملک کا وزیر اعظم ،وزیر دفاع ، وزیر داخلہ ، وزیر خارجہ سب بیٹھے ہیں ۔ انسان کا اپنا ضمیر بھی ہوتا ہے ۔ ماں ، بہن ، بیوی ، بیٹی ، بیٹے ہوں گے انہیں اورآپ کے نوکر کو بھی پتہ ہے کہ آپ نے الیکشن نہیں جیتا اس طرح ملک نہیں چلائے جاسکتے۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ تمام بلوچستان کی آبادی پشتون بلوچ ملا کر پنجاب کے ایک ضلع کے برابر ہے اُس صوبے کے وسائل کھربوں میں ہیں اور ایک غریب مرد بلوچ کے پاس تین جوڑے کپڑے کا تصور نہیں ہے وہ کس طرح آپ کے ساتھ چلیں ؟ وہ حق مانگے گا آپ پتھر ماریں گے آپ گولیاں چلائیں گے گولیوں سے فتوحات نہیں ہوتی ۔ جب لیگ آف نیشنل بنی تھی تو تمام دنیا میں آزاد ممالک کی تعداد 66کی تھی 75سال ہوئے یہی 66ممالک ٹوٹتے ٹوٹتے 193ہوگئے پھر قرآن کریم کے کس آیت میں آیا ہے کہ آپ کا یہ طریقہ پاکستان کو بربادی کی طرف نہیں لیجائیگا۔ ؟محمود خان اچکزئی نے آرمی چیف اور ایجنسیوں کے سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مہربانی کرکے اس ملک پر رحم کریں توبہ کریں ۔ ہم سب نے توبہ کرنی ہوگی۔ آئیں اس ملک پہ آئین کی بالادستی تسلیم کرلیں ۔ منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوگی ، داخلی وخارجی پالیسیاں وہاں سے بنے گی ۔ پشتون ، بلوچ، سندھی ، سرائیکی ، پنجابی کے وطنوں میں جو قدرتی وسائل ہیں ان پر پہلا حق وہاں کے بچوں کا تسلیم کرنا ہوگا۔گلگت سے لیکر ضلع ہزارہ تک پشتونخوا صوبے کے وسائل پر وہاں کے بچوں کو آئینی ضمانت دے دیں کہ پہلاحق آپ کے بچوں کا ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آپ اس قسم کی ٹھیڑی میڑھی باتیں کریں گے کہ جی آپ کو قدرتی وسائل جہیز میں ملی ہیں؟ جہیز پشتونوں میں نہیں ہے پشتون نہ جہیز لیتے ہیں نہ دیتے ہیں۔ اس قسم کی غیر ذمہ دار باتیں کوئی ذمہ دار آدمی کرتا ہے تو آدمی پریشان ہوجاتا ہے ۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ افغانستان کے بارے میں ابھی تیاریاں ہورہی ہیں ہم منت کررہے ہیں خدا کے لیے اس رمضان کے مہینے میں ہم کہتے ہیں کہ اس خطے میں جنگ شروع نہ کریں ، ہم جنگ تو شروع کردینگے لیکن پھر یہ بڑی طاقتیں یہ جنگ ختم نہیں ہونے دینگی پھر یہاں ہمارا خطہ دنیا کے مست سانڈوں کا میدان جنگ ہوگا۔چین ، روس ، امریکہ ، اسرائیل ، یورپ ، ہندوستان پھر ہمارے یہ غریب لوگ ہوںگے ان لوگوں کا بدترین اسلحہ ہوگا ہم اپنے گھروں میں مرینگے۔ افغانستان ہمارا وطن ہے ۔ شہباز شریف مہربانی کرے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے کہے کہ افغانستان اور اُس کے ہمسایوں کی ایک میٹنگ یہاں پاکستان میں بلائیں ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم پر یہ الزام ہے کہ ہم جائز اور ناجائز افغانوں کے ساتھ کھڑے ہیں نہیں ہمارا وعدہ ہے اگر اس گول میز کانفرنس میں افغانستان کہے کہ میں پاکستان کے خلاف دہشتگرد کو ٹریننگ دونگا اور پاکستان میں دہشتگردی کرونگا تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور اگر وہ آپ سے کہے کہ ہم آپ کی خودمختاری کا خیال رکھینگے اور آپ ہماری خودمختاری کا خیال رکھیں گے ۔ایران سے بھی یہی ڈیمانڈہونی چاہیے اگر افغانستان کہے کہ خدا کے لیے ہمیں جینے دو چالیس سال سے ہم برباد ہوچکے ہیں بہانہ نہ بنائیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پتہ نہیں ہمارے لوگوں کو کیا ہوا ہے ، عراق ، لیبیا ، شام ، مصر کی حالت آپ نے دیکھ لی ۔ فلسطین ، اسرائیل کی حالت دیکھ لی ۔ خدا کے بندو گزارے کے تین ممالک رہ گئے ہیں ایک یہ ہمارا ملک ،ایک ایران اور ایک ترکی آپ لوگ کیوں اس کے پیچھے پڑے ہو؟۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ چائنا ہمارا دوست ہے وہ اقوام متحدہ کا سیکورٹی کونسل کا رکن ہے جو ہم سب کو سیٹلائٹ سے دیکھ رہا ہے کہ کون کس کے ہاں مداخلت کررہا ہے اُنہیں درمیان میں ضامن بنائیں۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے ہم بدترین خانہ جنگی کی طرف جارہے ہیں۔آخری سال ویت نام میں اتنے بم برسائے جو دوسری جنگ عظیم میں ہم نے نہیں برسائی تھی لیکن پھر بھی ویتنام جیت گیا عوام کے خلاف جنگ توپوں سے نہیں جیتی جاسکتی ۔ عوام سے جیتنے کے لیے ان کے مسائل کو سُننا پڑیگا ان کے جائز مسائل کو ماننا پڑیگا۔بلوچ کہتا ہے مجھے اور میرے بچوں کو انسان سمجھو جو میری سرزمین میں ہے اس پہ میرے بچے کا حق تسلیم کرو۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پھر آپ کو کونسا بلوچ چاہیے میں لے آؤنگا لیکن یہ آئینی گارنٹی دینی ہوگی ۔ جی ایم سید کا نواسہ بیٹھا ہے ان سے کہہ دیں ان کے ذریعے تمام سندھ کہ کہہ دیں کہ آپ کے ساحل ووسائل پر آپ کے بچے کا آئینی حق ہوگا ۔اگر آپ اس آئین کو چھیڑتے ہیں تو پھر ہمارے لیئے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ہم سندھی ، بلوچ، پشتون ڈیموکریٹس ہم پھر مجبور ہیں کہ ہم نئے آئین کا مطالبہ کریں کیونکہ یہ آئین نہ اپنے آپ ،نہ اپنے خالق کو اور نہ اس ملک کے اداروں کو بچا سکا ۔ ہمیں مجبور نہ کریں کہ اس ملک میں نئے آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کریں۔جرنیل صاحبان کو آئین میں لکھے گئے فریم کے اندر رہ رہنا ہوگا ،صحافیوں کو اپنا کام کرنے دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *