سیاست کا ’’ٹی ٹوئنٹی‘‘ آج پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوگا

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کیلئے حکومت اور متحدہ اپوزیشن نے منگل کی شب رات گئے تک اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور حتمی حکمت عملی وضع کرنے کے لئے ٹیلی فونک اور بالمشافہ رابطوں کے ساتھ ساتھ پیغام رسانی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
فریقین کی جانب سے بالخصوص اپنے اپنے ارکان کی ایوان میں حاضری کو ہر صورت یقینی بنانے کیلئے یقین دہانیاں بھی حاصل کی گئیں۔مشترکہ اجلاس کے التوا کے بعد حکومت کی جانب سے کامیابی کے بیانات دعوئوں اور سرگرمیوں کے تناظر میں آج (بدھ) ہونے والے اجلاس کے ایجنڈےکے ساتھ ساتھ ملکی صورتحال کے پیش نظر اجلاس غیر معمولی اہمیت اختیار کرگیا ہے اور بادی النظر میں یہ بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ اگر حکومت کو عددی اکثریت کے باعث ایوان میں شکست ہوتی ہے تو اسے حکومت کی ناکامی کیساتھ ساتھ ایوان کا حکومت پر عدم اعتماد قرار دیا جائے گا۔

ظاہر ہے کے اس کے اثرات حکومت کی بقیہ مدت پوری کرنے پر براہ راست اثراندازہوسکتے ہیں۔ پھر صرف یہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں اپوزیشن زیادہ اعتماد اور بھرپور پارلیمانی طاقت کیساتھ حکومت سے مزاحم ہوگی اور حکومت کو ایوان کی کارروائی چلانے کے لئے پریشانی اور تحریک بلوں کی منظوری اور دوسرے پارلیمانی بزنس میں بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس لئے حکومت کی پوری کوشش ہوگی کے کل وہ ایوان میں پیش کئے گئے بلوں کو ہر صورت منظور کراکے ایوان میں فتح مند ہوسکے۔

دوسری طرف متحدہ اپوزیشن کے لئے ’’ابھی یا پھر کبھی نہیں‘‘ کی صورتحال ہوگی جس کے لئے اس نے اپنی بھرپور کوششوں سے پہلی کامیابی تو اس وقت حاصل کرلی تھی جب حکومت کو اپنی شکست یقینی دیکھ کر اجلاس ملتوی کرنا پڑا تھا جس سے اس کے اس کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا تھا اور اس وقت اپوزیشن کی فتح اتنی یقینی تھی کہ صرف حکومتی کھلاڑیوں کو ہی نہیں بلکہ کپتان کو بھی اپنی شکست کا اندازہ ہوگیا تھا لیکن اب کم وبیش ایک ہفتے بعد حکومت کو صورتحال بظاہر اپنے حق میں ہموار کرنے کا موقع مل گیا اوراب وہ اتحادی جماعتوں کے ووٹوں سے اپنی کامیابی کو یقینی قرار دے رہے ہیں۔

لیکن دو اہم اتحادی جماعتیں جن کے ارکان کی واضح تعداد سینٹ اور قومی اسمبلی میں موجود ہے وہ پاکستان مسلم لیگ ق اور ایم کیوایم ہی ہیں۔ایم کیو ایم نے تو واضح طور پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی ایجنڈے کی حمایت کااعلان کردیا ہے جبکہ دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ق کے بارے میں بعض حکومتی وزرا نے تو دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جانب سے وزیراعظم کو حمایت کی مکمل یقین دہانی کرادی گئی ہے اور ان کاووٹ حکومت کےساتھ ہوگا۔

رات گئے تک مسلم لیگ ق کی جانب سے حکومتی دعووں کی باضابطہ یا واضح لفظوں میں تصدیق سامنے نہیں آسکی۔ اس لئے اگر مسلم لیگ ق چاہے تو وہ نتیجہ خیز’’اپ سیٹ‘‘ کرسکتی۔

بہرحال مبصرین تجزیہ نگار اور دیگر صحافی حلقے آج ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو مختصر دورانیے اور محدود اوورز کے کرکٹ میچ 20,20 سے تعبیر کررہی ہیں جس کا فیصلہ چند گھنٹوں میں ہوجاتا ہے۔