’اٹارنی جنرل صاحب! تجاویز جانیں اور ملازمین جانیں، عدالت صرف قانون کو دیکھے گی‘

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)جسٹس عمرعطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ برطرف ملازمین سے ہمدردی ہے مگرعدالت نے آئین و قانون کو دیکھنا ہے۔جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے سیکڈ ایمپلائز ایکٹ کالعدم قراردینے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ حکومت ملازمین کی بحالی چاہتی ہے۔ ہم نے کل جو تجاویزدی ہیں وہ درخواست گزاروں کی رضامندی سے مشروط ہے۔ گریڈ ایک سے سات تک کے ملازمین کو بحال کر دینا چاہیے۔ جو ملازمین مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتے ہیں وہ تجاویز میں شامل نہیں ہیں۔ اگرفریقین رضامند نہ ہوں تو حکومت نظر ثانی کے مؤقف پر قائم ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کے کہنے کا مقصد ہے اگر درخواستیں خارج ہوتی ہیں تو حکومت ان تجاویز پرعمل کرے گی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نظرثانی منظور کرے اور فیصلہ دے۔

ہم حکومت کی تجاویز سے متفق نہیں

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ کیس نظر ثانی سے بھی مختلف نوعیت کا ہے۔ بہت بڑی تعداد لوگوں کی متاثر ہوئی جو 184/3 میں آرہا ہے۔ مفاد عامہ کی مشق پہلے ہی ہو چکی ہے۔ ہم بنیادی حقوق کا تحفظ کررہے ہیں۔ سب ججز متفق ہیں کہ یہ عوامی مفاد کا کیس ہے۔ ہم حکومت کی تجاویز سے متفق نہیں ہیں۔ ملازمین کی بھرتی کے طریقہ کار پرعمل کرنا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ گزشتہ 30 برسوں میں میرٹ اور شفاف بھرتیوں پر کئی فیصلے دے چکی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اوگرا کیس میں ایک بہترین فیصلہ دیا تھا۔ آئین و قانون کے مطابق طریقہ کار پرعمل ضروری ہے۔

برطرف ملازمین سے ہمدردی ہے

اپنے ریمارکس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت نے اپنی تجاویز میں تسلیم کیا کہ قواعد کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ ہمیں تضادات میں نہیں پڑنا چاہیے۔ ان لوگوں کو جب نکالا گیا ان کے حقوق متاثرہوئے۔ ملازمین کی بھرتی کے وقت بھی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہوئی۔ برطرف ملازمین سے ہمدردی ہے مگرعدالت نے آئین و قانون کو دیکھنا ہے۔ سہولت بھی دینا ہوگی تو آئین کے مطابق دیں گے۔ حکومتی تجاویز کے نہیں آئین کے مطابق چلیں گے۔

کیس کا رنگ بدل چکا ہے

اٹارنی جنرل کو سیکڈ امپلائز ایکٹ پر دلائل دینے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ مسٹر اٹارنی جنرل! اپنے دماغ میں یہ بات رکھیں کہ موجودہ کیس کا رنگ بدل چکا ہے۔ موجودہ کیس نظرِ ثانی کا ہے لیکن ہم نے نئے سرے سے قانون کی تشریح شروع کی۔ ملازمین کے کیس میں بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ملازمین کا کیس آرٹیکل 184 تھری کا اچھا کیس تھا لیکن مرکزی کیس میں اس کا اطلاق ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ آئین اور آئینی حدود کی پابند ہے۔ عدالت 30 سال سے بھرتیوں کے طریقہ کار پرعملدرآمد کرا رہی ہے۔ سیکڈ ملازمین نظرثانی کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کل فیصلہ سنائے گی۔