اقصٰی پرویز لڑکیوں کے لیے ایک روشن مثال
رپورٹ: ارباز شاہ
لوگ انہیں لڑکا سمجھتے ہیں لیکن ایسا ہے نہیں کیوں کہ وہ ایک لڑکی ہیں جو لڑکوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ضرور ہیں اور بائیک بھی چلاتی ہیں۔ دراصل ہم بات کر رہے ہیں 17 سالہ اقصیٰ پرویز کی جو چھوٹے بالوں، ٹی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے لڑکوں جیسا لباس زیب تن کیے ایک قدامت پسند معاشرے اور پدر شاہی نظام کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان رہائش کوئٹہ کے جنوب مغربی علاقے میں ہے۔
نواحی علاقے سے شہر کے نیشنل اسپورٹس کمپلیکس تک سڑکوں پر موٹرسائیکل دوڑاتی اقصیٰ کے لیے قدامت پسند معاشرے میں ایسا کرنا ایک بڑا معرکہ سر کرنے کے مترادف ہے، ان کے اولین مقاصد میں سے ایک اپنے 15 کھلاڑیوں کو فٹ بال کی تربیت دینا ہے۔
اقصیٰ پرویز گزشتہ 3 برسوں سے فٹبال کھیلتی آرہی ہیں اور وہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی بھی کرچکی ہیں۔ وہ بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں اپنے ملک کا نام روشن کرے کے حوالے سے خاصی پرامید ہیں۔
بلوچستان کی پہلی لڑکی (ٹامبوائے) فٹ بال کھلاڑی اس وقت پاک فوج کی طرف سے کھیلتی ہیں اور فٹبال ہی ان کا ذریعہ معاش ہے۔ اقصی دیگر خاتون کھلاڑیوں کو فٹبال کی تربیت بھی دیتی ہیں۔
کوئٹہ میں واقع ایوب نیشنل اسٹیڈیم میں بیٹھی اقصیٰ کا انٹرویو کرنا میرے لیے کافی خوشگوار رہا۔ ایک ایسی بہادر لڑکی کی کہانی جس نے مضبوط قدامت پسند نظام کو توڑتے ہوئے ایک انوکھی مثال قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
اقصیٰ کا کہنا ہے “میں نے لڑکوں کے درمیان گراؤنڈ میں فٹ بال کھیلنے کے لیے گھر سے باہر نکلتے وقت اپنی جنس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ میں لڑکوں کے ساتھ فٹبال کھیلتی ہوں، چائے پیتی ہوں، کھانا کھاتی ہوں اور گپ شپ کرتی ہوں۔ میرے دوست مجھے لڑکوں کا نام حمزہ سے پکارتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں کچھ لوگ طعنے بھی دیتے ہیں کہ انہوں نے لڑکوں جیسا حلیہ اپنایا ہوا ہے، سڑک اور گراؤنڈ میں راہگیروں کی طرف سے گھورا جانا اب معمولی لگتا ہے کیوں کہ وہ خود اس طرح کے غلط رویے اور امتیازی رویے سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔
طویل فاصلے تک موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اقصیٰ اپنے بھائی کے ساتھ ہر ہفتے کے آخر میں اپنی فراغت کے لمحات شہر کے مضافات میں واقع خوبصورت پہاڑی چٹانوں پر جاتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے “فٹ بال کھیلنا اور موٹر سائیکل چلانا میرا جنون ہے اور میں اپنے والدین کی شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمیشہ میرے طے کردہ اہداف کے حصول میں میری مدد کی، چوں کہ بلوچستان میں کم عمری کی شادی عام ہے اس لیے میرے رشتہ داروں کی جانب سے والدین پر اکثر یہ دباؤ رہتا ہے کہ اقصیٰ جوان ہوچکی لحاظہ اس کی شادی کردی جائے۔”
مکمل طور پر سخت معاشرتی ڈھانچے میں اقصیٰ ایک منفرد کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کی یہ کاوش دیگر لڑکیوں کی بھی آگے بڑھنے اور کچھ کر دکھانے کے لیے ہمت افزائی کرتی ہے۔
اپنی بیٹی پہ فخر کرتے ہوئے اقصیٰ کے والد پرویز اپنی بیٹی کو ایک قدامت پسند معاشرے میں ہونے کے باوجود مکمل طور پر سپورٹ کرتے ہیں اور انہیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ اقصیٰ کی اپنے خوابوں کی تکمیل کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتے۔
اقصیٰ کے والد کہتے ہیں “پہلے تو ہم اقصیٰ کی حمایت کرنے اور اسے لڑکوں کے درمیان کھیلنے اور دیگر خاتون کھلاڑیوں کی کوچنگ کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن اس کی خواہش اور جنون کو دیکھتے ہوئے ہم نے اسے مکمل اجازت دی اور ہمیں اس پر فخر ہے”۔
اقصیٰ کے پڑوسی و دیگر اس عمل کو معیوب سمجھتے ہیں تاہم پرویز دیگر افراد سے بھی اپنی بیٹیوں کو عملی میدان میں آگے لانے کا کہتے ہیں۔
ٹامبوائز کو سمجھنے کے بارے میں ایک مطالعہ (بیلی، ستمبر 2002) دراصل اس سوال کو حل کرتا ہے کہ ٹامبوائز ہر لحاظ سے لڑکوں جیسا برتاؤ کیسے کرتے ہیں؟
ہو سکتا ہے کھیلوں میں دلچسپی اور لباس سے نفرت کے لحاظ سے ٹامبوائے مردانہ ہوں لیکن کیا وہ جسمانی طور پر بھی دوسری لڑکیوں کے مقابلے زیادہ جارحانہ ہوتے ہیں؟
کن رویوں میں ٹامبوائے دوسری لڑکیوں سے مختلف ہوتے ہیں؟
ان سوالوں کا جواب دو الگ الگ مسائل پر منحصر ہے: مثال کے طور پر، یہ ممکن ہے کہ لوگ ٹامبوائے کا مطلب محض ایک لڑکی سمجھیں جو کھیلوں اور لڑکوں کی مخصوص سرگرمیاں پسند کرتی ہوں اور اس تصور کا جارحیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ممکن ہے کہ ٹامبوائے دوسری لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ ہوں۔ خواتین میں جارحیت اور مردانہ عادات مثبت طور پر منسلک ہوتی ہیں۔
یونیورسٹی آف بلوچستان میں شعبہ جینڈر اسٹڈیز کی سربراہ میڈم نسرین کا کہنا ہے کہ کس طرح “ٹامبوائز” دوسری عام لڑکیوں سے خود کو مختلف محسوس کرتی ہیں “ٹامبوائے بے ترتیبی سے بھاگنا پسند کرتے ہیں۔ انہیں بائیک، اسکیٹ بورڈ اور رولر اسکیٹس پسند ہوتے ہیں۔ عموماً ان کا پسندیدہ رنگ نیلا، کالا، بھورا، سرخ اور سبز ہوتا ہے۔ جب وہ چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ اسپائیڈر مین دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ کچھ ماریو کارٹ جیسے ویڈیو گیمز کھیلنا بھی پسند کرتے ہیں۔
سولہویں صدی کے وسط میں جب “ٹامبوائے” کی اصطلاح پہلی بار سامنے آئی، تو یہ دراصل ان مرد بچوں کا نام تھا جو بدتمیز اور مغرور ہوا کرتے تھے۔ لیکن سن 1590 کی دہائی تک اس لفظ کا استعمال بدل گیا ایک چھیڑ چھاڑ کرنے والی لڑکی جو ایک پرجوش لڑکے کی طرح کام کرتی ہو۔
اقصیٰ جمناسٹک کی مشق بھی کرتی ہیں۔ اور سیلف ڈفینس کی تربیت بھی حاصل کرتی ہیں تاکہ وہ خود کو مشکل وقت میں بچا سکیں۔ ان کا کہنا ہے “مجھے اپنے کیریئر سے روکنے کے لیے آنے والی چیزوں سے نمٹنے کے لیے ہر طرح سے تیار رہنا پڑتا ہے۔ فٹ بال کھیلنا میرے دل کے بہت قریب ہے، مجھے گراؤنڈ میں دیگر نوجوان لڑکیوں کی تربیت اور اپنی فٹنس کے لیے مشق کرنا پسند ہے۔”
صنفی بنیادوں پر دقیانوسی رویوں کو اقصیٰ اپنے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بننے نہیں دیتی اور اپنی راہ میں آنے والی ہر مشکل کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اقصیٰ کا کہنا ہے کہ وہ محکمہ کھیل بلوچستان کے جانب سے فراہم کردہ فٹ بال کلب اور دیگر مطلوبہ سہولیات سے مطمئن ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ کھیل کے میدان میں خواتین کو مرکزی دھارے میں لاتے ہوئے انہیں مواقع فراہم کرنے چاہئیں تاکہ پدر شاہی معاشرے کی زنجیر توڑتے ہوئے خواتین آگے بڑھ سکیں۔