بائی پولر ڈس آرڈر کی شناخت کے لیے نیا بلڈ ٹیسٹ
پیرس(قدرت روزنامہ) سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے مشترکہ طور پر انسانی لہو میں چھ ایسے بایومارکر دریافت کئے ہیں جو بائی پولر جیسے مریض کی شناخت کرسکتے ہیں۔ اس کاوش سے کروڑوں افراد مستفید ہوسکیں گے۔
مونٹ پولیئر یونیورسٹی ہسپتال، فرانس، سوئزرلینڈ کے نفسیاتی ہسپتال لیس ٹوئسس، اور جامعہ پٹس برگ کے سائنسدانوں نے ایک کمپنی ایلسی ڈیاگ کے تعاون سے معلوم کیا ہے کہ خون کا ٹیسٹ بائی پولر مرض کی شناخت کرسکتا ہے۔ اس کے تمام شواہد جریدے نیچر میں شائع ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں جہاں ڈپریشن کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 30 کروڑہے ان میں سے 40 فیصد تعداد کسی طرح بائی پولر کی شکار ہوسکتی ہے۔ اس کیفیت میں غمی خوشی کا مزاج بدلتا رہتا ہے۔ مایوسی کے دورے پڑتے ہیں اور اپنی ذات سے اعتبار بھی ختم ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریض کا رویہ کسی پیشگوئی کے قابل نہیں رہتا۔
لیکن اب تک اس کی شناخت میں دیر لگ رہی تھی جس سے خود مریض کی حالت بگڑتی جاتی ہے اور بسااوقات سات برس بعد ہھی مرض کی شناخت نہیں ہوپاتی اور مریض خود اہلِ خانہ کے لیے بھی پریشانی کی وجہ بن جاتے ہیں۔
یہ مرض کامیابی سے بائی پولر اور یونی پولر کے درمیان فرق کرسکتا ہے۔ تاہم اس بلڈ ٹیسٹ میں اؔٓراین اے اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کو استعمال کیا جاتا ہے جس سے اس کی درستگی 80 فیصد تک تک جاپہنچتی ہے۔ پھر چھ بایومارکر میں سے جتنے زیادہ موجود ہوں بائی پولر کا شبہ یقین میں ڈھلتا جاتا ہے۔اس پورے منصوبے کو ایڈٹ بی کا نام دیا گیا ہے جس میں نجی کمپنی کے علاوہ کئی ممالک کی جامعات نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔