اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکررولنگ کیس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو تین رکنی بینچ آج پونے 6 بجے سنائے گا . چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف سماعت ہوئی .
کارروائی کا بائیکاٹ
ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر عدالت میں پیش ہوئے اور حکومتی بائیکاٹ سے متعلق بتایا کہ مجھے کہا گیا ہے عدالتی کارروائی کا مزید حصہ نہیں بنیں گے، ہم فل کورٹ درخواست مسترد کرنے کے حکم کیخلاف نظر ثانی دائر کریں گے . اس موقع پر پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے بھی عدالت کو کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کردیا جس پر چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں، اس کے بعد عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا .
فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا، چیف جسٹس
دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جوازپیش نہیں کیا گیا، عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پرعمل کرنے سے متعلق دلائل دیے گئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں .
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں . چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ تمام پارٹی ممبران کو خط بھیجا گیا تھا .
چیف جسٹس نے کہا کہ اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے، فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں .
سپریم کورٹ نے بائیکاٹ کرنے والوں کو ایک بار پھر اپنے فیصلے پر نظرثانی کا آپشن دے دیا . چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے ساری صورتحال واضح ہوچکی ہے ، سب نے بہترین دلائل دیے .
چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ عدالت کو پارٹی سربراہ کی ہدایات یا پارلیمانی پارٹی ڈائریکشنزپرمعاونت درکارہے، قانونی سوالات پرمعاونت کریں یا پھرہم اس بینچ سےالگ ہوجائیں، جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کوعبادت کا درجہ دیتا ہوں . جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ میرے دائیں بیٹھے حضرات نے اتفاق رائے سے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا ہے، شکرہے کہ اتنی گریس باقی ہے کہ عدالتی کارروائی سننے کے لیے بیٹھے ہیں .
علی ظفر کے دلائل
بعد ازاں عدالت نے سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کردیا جس کے بعد سماعت پھر شروع ہوئی تو علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ارکان کے خلاف ایکشن پارٹی سربراہ لے گا، پارٹی سربراہ منحرف ارکان کےخلاف ڈکلیئریشن بھیجتا ہے .
فل کورٹ نہ بنانے کیخلاف نظر ثانی درخواست دائر کریں گے
سپریم کورٹ کے باہر ڈپٹی اسپیکر پنجاب کے وکیل عرفان قادر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنا، ہم نے ان سے درخواست کی کہ آپ کے خلاف سب نے آواز بلند کی ہے، ہمارا آئینی حق ہے فل کورٹ نہ بنانے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کریں گے، نظر ثانی کی اپیل اگر مسترد ہوئی تو پھر فل کورٹ کے سامنے درخواست لگے گی، مجھے امید ہے کہ وہاں مسترد نہیں ہوگی .
عرفان قادر نے کہا کہ میں بھی جج رہا ہوں اگر کسی کو اعتراض ہوتا تھا تو میں بینچ چھوڑ دیتا تھا، یہ مسلمہ قانون ہے کہ اگر کسی کو اعتراض ہے تو بیںچ تبدیل ہو جاتا ہے، اگر آپ کا کیس ایسے جج کے سامنے ہو جہاں لاکھوں لوگ اعتراض کر رہے ہوں تو ہٹ جانا چاہیے .
فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد
گزشتہ سماعت پر تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کچھ دیر کا وقفہ لیا اور پھر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کردی .
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے کئی گھنٹے تمام فریقین کو سنا، فریقین نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے دیے، سوال یہ تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ قانونی ہے یا نہیں، سوال تھا کیا پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے یا نہیں جب کہ صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ فیصلہ سنا چکی ہے . چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے رولنگ میں پارٹی ہیڈ کے خط کو بنیاد بنایا، مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر دلائل دیے .
عدالت کا سیاسی بحران اور معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار
سپریم کورٹ نے پچھلے 4 ماہ سے جاری سیاسی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حمزہ شہباز کیس کو زیادہ دنوں تک التواء میں رکھنے سے انکار کردیا .
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملات جلد حل کرنے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایک نئی حکومت سامنے آئی، ہم چاہتے ہیں پارلیمان مضبوط ہو، ایوان میں مضبوط اپوزیشن ہو . چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں جاری بحران میں اضافہ ہورہا ہے، کیا آپ بحران میں مزید اضافہ چاہتے ہیں ، آپ چاہتے ہیں ستمبر میں فل کورٹ بنایا جائے، فل کورٹ بنانے کی صورت میں ملکی بحران میں اصافہ ہوگا، سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہو یا غلط لیکن فیصلہ بائنڈنگ ہے . جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت عوامی مفاد اور آئینی معاملات کو مزید التواء کا شکار نہیں کرے گی، ملک میں جاری معاشی بحران پر اس عدالت کو خدشات ہیں، کیا اس عدالت کی وجہ سے ملک میں بحران اور انتشار پیدا ہوا .
سپریم کورٹ نے ملکی معاشی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے .
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے سلسلے میں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی جانب سے چوہدری پرویز الہٰی کے حق میں ڈالے گئے 10 ووٹس مسترد کردیے تھے .
انہوں نے رولنگ دی تھی کہ مذکورہ ووٹ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے احکامات کی خلاف ورزی ہیں، جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز ایک مرتبہ پھر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے .
بعد ازاں چوہدری پرویز الہٰی نے مسلم لیگ (ق) کے وکیل عامر سعید راں کے توسط سے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا . مذکورہ درخواست پر 23 جولائی کو سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کرنے کی ہدایت کی تھی .
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے تاہم عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کردی . سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد جاری حکم نامے میں کہا تھا کہ حمزہ شہباز آئین اور قانون کے مطابق کام کریں گے اور بطور وزیر اعلیٰ وہ اختیارات استعمال نہیں کریں گے، جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا .