بلوچستان ،سیلاب سے ہزاروں سکولز متاثر 3لاکھ بچوں کی تعلیم کو خطرہ

مطیع اللہ مطیع
13سالہ بی بی ناہیدہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 60سے 70کلو میٹر کی میٹردور تحصیل پنجپائی کے علاقے کلی محمد خیل میں گورنمنٹ گرلز مڈل سکول میں زیر تعلیم ہے وہ آج بھی مڈل کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے پریشان ہے .
ہمارے کلی میں صرف ایک ہی سرکاری سکول ہے جو پہلے پرائمری تک تھا گزشتہ سال انہیں مڈل کا درجہ دیاگیا یہاں ہم تقریبا 60سے 70بچے زیر تعلیم ہے یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ سکول کو مڈل کا درجہ ملا ہے کیونکہ پرائمری تک ہونے کی وجہ سے میری بڑی بہن اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ چکی ہے .


بی بی ناہیدہ کہتی ہے کہ ''2کمروں پر مشتمل سکول بنیادی سہولیات جیسے پانی ،بجلی ،گیس سے محروم ہیں سکول میں واش روم تو ہے لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑا ہے گرمی ہو یا سردی طالبات کومشکلات کاسامنا رہتاہے سکول کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہے . بارشوں سے سکول بلخصوص کمروں کو نقصان پہنچاہے جس کی وجہ سے مجھ سمیت بچے خوف کے سائے تلے کلاس لے رہے ہیں .
محکمہ تعلیم کے رئیل ٹائم سکول مانیٹرنگ سسٹم کے رپورٹ کے مطابق محکمہ تعلیم یونیسف کے تعاون سے متاثرہ سکولز کی سروے کررہی ہے جس کے مطابق 6ہزار 69سکولز کا سروے کیاگیا جس میں 4ہزار186سکولز متاثر ہوئے ہیں 4ہزار میں6فیصدسکولز کے بلڈنگ مکمل تباہ ،6فیصد سکولز کی بلڈنگ غیر محفوظ ،8فیصد سکولز کے بعض کلاسز محفوظ ہیں . ان متاثرہ سکولوں میں 2ہزار 279بوائز سکولز،11سو 30گرلز سکولز جبکہ 174سکولز کو ایجوکیشن ہیں . ان سکولوں میں 2659پرائمری ،477مڈل 405ہائی سکولز شامل ہیں جہاں 3لاکھ 86ہزار 700زیر تعلیم طلباء وطالبات کی تعلیم متاثر ہوگی .
45سالہ امان مشوانی کلی محمد خیل کے رہائشی ہے ''ہمارے ہاں بچیوں کے سکولز پرائمری تک ہونے کی وجہ سے زیادہ تعلیم کا رحجان نہیں ہے جس سکول کی آپ بات کررہے ہیں یہ گزشتہ سال پرائمری سے مڈل میں تبدیل ہواہے پانی ،بجلی سمیت بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سکول کی تعداد دن بدن کم ہورہی ہے .
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ دو سے تین سالوں میں سکول کی تعداد200سے کم ہوکر 70تک محدود ہوگئی ہے سال کے شروع میں 90تک طالبات نے داخلے کیلئے رجوع کیا تھا لیکن کتابیں ودیگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ تعداد65تک محدود ہوگئی ہے اب پتہ نہیں حکومت سامان کیوں فراہم نہیں کرسکی ہے .
مون سون کی حالیہ بارشوں سے سکولز متاثر ہونے کی وجہ سے پنجپائی کے سینکڑوں طلبا وطالبات کو تعلیم کے حصول میں مشکلات درپیش آرہی ہے اگر حکومت بروقت سکولز کے بلڈنگ کی تعمیرومرمت کیلئے اقدامات اٹھائے تو شاید ہمارے بچوں کا یہ سال ضائع نہ ہوں .
رکن صوبائی اسمبلی شاہینہ کاکڑ کہتی ہے کہ جن اقوام نے ترقی کی ہے وہ تعلیم کو اولین ترجیح بنا کر ہی آگے گئے ہیں بلوچستان تعلیم کے حوالے سے پسماندگی کاشکار ہے ضروری ہے کہ سب سے زیادہ فنڈز تعلیم کیلئے خرچ کیاجائے اور سیلاب سے متاثرہ سکولز کی تعمیر ومرمت پہلی فرصت میں یقینی بنائیں .
یونیسیف کی بلوچستان میں ایجوکیشن منیجر پلوشہ جلالزئی نے بتایا کہ بلوچستان ایجوکیشن فلڈ رسپانس 2022 کے تحت 20 ستمبر 2022 تک صوبے بھر کی 15082 اسکولوں میں سے 9136 کی اسسمنٹ کی جا چکی ہے جس میں سے 1137 اسکولوں کو شدید یا جزوی نقصان پہنچا ہے جو کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں، یونیسف کی ٹیم سیلاب زدہ علاقوں میں موجود ہیں اور اپنی خدمات کی بجا آوری میں محکمہ تعلیم اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ 43 عارضی لرنگ سینٹررز میں 1401 بچوں اور 1501 بچیوں کو تعلیم کی زیور سے آراستہ کرنے میں مصروف عمل ہیں، 23 سکولوں سے نکاسی آب ممکن بنا رہی ہے .
سیکرٹری تعلیم عبدالروف بلوچ نے کہاکہ ہم نے تمام متعلقہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ نقصانات کا جائزہ لیں اور تباہ شدہ اسکولوں اور طلبا کی تعلیم پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں جامع رپورٹ تیار کریں . متاثرہ سکولوں سے متعلق جامع رپورٹ حکومت بلوچستان کوجمع کرائی جائیگی تاکہ اس کی تعمیر ومرمت کیلئے اقدامات اٹھائے جاسکے . متاثرہ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعلیم کو جاری رکھنے کیلئے یونیسف کے تعاون سے متبادل سکولز شروع کئے گئے ہیں جبکہ محکمہ تعلیم کے تحت چلنے والے پروجیکٹس میں بھی سیلاب متاثرہ سکولوں کو فوکس کیاجائے گا .
سیکرٹری ثانوی تعلیم عبدالروف بلوچ نے کہتے ہیں کہ تعلیم کے شعبے میں متعدد چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے حکومت بلوچستان پرعزم ہے جس میں تعلیم تک سب کی رسائی اور دیگر اہم تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جا رے ہیںحالیہ سیلابی صورتحال اور موسمی تغیرات سے پیدا ہونی والی ہنگامی صورتحال میں ہمیں مزید تندہی سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں ہر مثبت اقدام کو سراہا جائے گا تاکہ تعلیم اور تعمیر کا سفر یکساں طور پر جاری رہ سکے .
عبدالرئوف بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پرائمری کی سطح پرطالبات/ طلبا میں خواندگی کی مزید بہتری میں تدریسی عملے کی استعدکار میں اضافے کو خصوصی طور مرکوز کیا گیا ہے، نصاب اور مواد میں بہتری، صنفی تفاوت اور کمرہ جماعت میں بہترآموزش، استاد اور والدین کی بہتر کوآرڈینیشن سمیت اسکول مینجمنٹ کمیٹی میں بچوں کی شرح داخلہ میں اضافے اور سکول نہ چھوڑنے پر قائل کرنے سمیت معیاری تعلیم کا حصول کے بنیادی اصولوں پر کاربند ہوتے ہوئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں .

. .

متعلقہ خبریں