21سال کی عمر میں شادی ہوئی طلاق کے بعد لوگ مجھے منحوس کہنے لگے ۔۔ ایک طلاق یافتہ عورت کی کہانی جس سے معاشرے نے خو ش رہنے کاحق چھین لیا
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)تم اندر نہیں جاؤ۔۔۔ اندر میری بیٹی کا نکاح ہے اور تمھارے جانے سے نحوست کا سایہ پڑے گا“ یہ الفاظ انعم جنجوعہ کو اس وقت سننے پڑے جب وہ اپنی بہترین سہیلی کی شادی میں شرکت کے دوران اس سے ملنے جارہی تھیں۔ ان کی سہیلی کی ماں نے انعم کو اپنی بیٹی کے پاس اس لئے نہیں جانے دیا کیونکہ اس کا نکاح تھا اور انعم ایک طلاق یافتہ خاتون تھیں جسے معاشرے میں منحوس سمجھا جاتا ہے۔ انعم اپنی زندگی کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں ایک خوش شکل،
پڑھی لکھی اور اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والی عورت ہوں لیکن مجھے منحوس سمجھا جاتا ہے کیونکہ میری طلاق ہوچکی ہے۔ میری شادی 21 سال کی عمر میں ہوئی 22 سال کی عمر میں میرا بیٹا پیدا ہوا اور اس کے چھ مہینے بعد شوہر نے مجھے طلاق دے دی‘‘ انعم کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ یونیورسٹی میں سیکنڈ سیمسٹر کی طالبہ تھیں اس لئے طلاق کا دھبہ لگ جانے کے بعد انھیں پڑھائی کے دوران بہت سی پریشانیاں جھیلنی پڑیں کیونکہ سب کو ان کی طلاق کے بارے میں پتہ تھا۔بیٹے کی تربیت ایک چیلنج تھا انعم کہتی ہیں ان کے لئے اکیلے بیٹے کی تربیت کرنا بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ معاشرہ بچے کی چھوٹی چھوٹی غلطی پر بھی انھیں ہی کٹہرے میںٹھہراتا کہ چونکہ یہ خود طلاق یافتہ ہے اس لئے بچے کی اچھی تریت نہیں کرسکی۔ انعم کہتی ہیں اکیلے بیٹے کو پالنا جذباتی اور مالی لحاظ ہر طرح سے مشکل تھا لیکن انھوں نے ان تمام مشکلات پر قابو پالیا۔ایک طلاق یافتہ عورت سے شادی کوئی نہیں کرنا چاہتا انعم کہتی ہیں کہ یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ طلاق یافتہ عورت کا ہاتھ کوئی نہیں تھامنا چاہتا۔ لوگ اسے ریجیکٹڈ چیز کی طرح سمجھتے ہیں اور آخر میں یہ بہانہ بنا دیتے ہیں کہ اماں نے طلاق یافتہ عورت سے شادی کرنے سے منع کیا ہے۔ معاشرہ طلاق ہوجانے والی عورت کو خوش رہنے نہیں دیتا لیکن یہ ہماری اپنی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے لئے کیا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔