پہلے ہمارے گھرمیں نوکرتھے مگر اب وہی نوکرہمیں کھانے کودیتے ہیں ۔۔امیری سے غریبی تک کی رلادینےو الی داستان
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بزرگ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ برا وقت بتا کر نہیں آتا اور صدا بادشاہی اللہ ہی کی ہی ۔ آج ہم آپ کے ساتھ رلا دینے والی کہانی شیئر کریں گے جس سے پتھر سے پتھر دل انسان بھی رو پڑے۔ جہاں ک و ر و ن ا وائرس نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں چھین لیں وہیں کچھ لوگ ایسے ہیں جن سےک و ر و ن ا وائرس نے روٹی بھی چھین لی ۔ انہی لوگوں میں سمیرا نامی ایک خاتون بھی ہیں جو آج عرش سے فرش پر آگئی ہیں۔ آج سے 1 سال پہلے تک یہ حال تھا کے انکے گھر میں 3 سے 4 نوکرکام کرتے تھے۔ اپنا بنگلہ تھا ، اپنی گاڑیاں تھیں اور 1 فیکٹری تھی اور انکے شوہر مچھلی فارمنگ کا کام بھی کرتے تھے۔ یعنی کہ ایک اچھا کھاتا پیتا خاندان تھا لیکن آج حالت یہ ہے کہ جو نوکر انکے گھر میں کام کرتے تھے وہ ہی آج انہیں اپنی حیثیت کے مطابق راشن دیتے ہیں لیکن وہ بھی کم پڑ جاتا ہے ۔ اور انکے 7 بچے شہر کے ایک مہنگے اسکول میں پڑھتے تھے۔ انہیں بھی اسکول سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے 1 سال تک بچوں کی فیسیں ادا نہیں کیں تھیں۔ تو اسکول مالک نے کہا کہ آپ کے بچے شروع سے ہمارے پاس پڑھتے تھے اس لیے 1 سال تک تو میں نے برداشت کر لیا پر اب میں نہیں کر سکتا برداشت مجھے بھی اسکول کے عملے کی تنخواہیں دینی ہوتیں ہیں۔ اب اگر بچوں کو پڑھانا ہے تو پہلے فیسیں دیں۔ مزید یہ کہ گھر کا گزر بسر کرنے کیلئے انکے شوہر جو کبھی ایک بہت بڑے بزنس مین ہوا کرتے تھے وہ آج صرف 500 روپے میں ایک رکشہ چلاتے ہیں اور گھر کا بڑا بیٹا علاقے میں چکر لگا لگا کر ماسک فروخت کرتا ہے ۔ لیکن اس مہنگائی کے دور میں تو یہ رقم جو بیٹا اور باپ مل کر کماتے ہیں اس سے تو گھر نہیں چل سکتا اور اوپر سے اب یہ ایک کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہ رہے ہیں اسکا کرایہ ہی صرف 7 ہزار روپے ہے۔ اس کے علاوہ سمیرا کا روتے روتے کہنا تھا کہ میں ایک ماں ہوں اور بچوں کی بھوک مجھ سے دیکھی نہیں جاتی اور میری گونگی بہری بیٹی کو کھانا نہیں ملتا تو وہ بہت روتی ہے اور اب حالت یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس صبح کے ناشتے کیلئے روٹی ہو تو پھر دن بھر کچھ نہیں ہوتا تو ہم اپنی گونگی بہری بیٹی کو بہت دلاسے دیتے ہیں کہ شام میں ابو آئیں گے تو کھانا لیکر آئیں گے تو سب کھانا کھائیں گے لیکن وہ بچی ہے نہیں سمجھتی اور بہت روتی ہے جس کیساتھ ہم سب بھی بہت روتے ہیں۔ واضح رہے کہ جیسے ہی کورونا وائرس کی پہلی لہر پاکستان میں آئی تو دنیا ڈر گئی کہ اب کوئی نہیں بچے گا، اور سب لوگ گھر بیٹھ گئے مگر گھر کا خرچ چلانے کیلئے سمیرا کے شوہر نے پہلے تو اپنی نئی لگائی ہوئی شاپر بنانے کی فیکٹری بیچ دی صرف فیکٹری ہی نہیں بلکہ اسکے اندر لگی ہوئی 50 لاکھ کی شاپر بنانے کی مشین بھی کوڑیوں کے دام میں بیچ دی۔ بس یوں ہی پھر گھر گاڑیاں ، بنگلہ سب بک گیا اور مچھلی فارمنگ کا کام تو لاک ڈاؤن کے باعث پہلے ہی بند ہو گیا تھا۔