قائد اعظم کی تصویر کے سامنے غیر خلاقی فوٹو شوٹ کرنے والے نوجوان کی گرفتاری کی خبریں

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)رواں ماہ کے آغاز میں دارالحکومت اسلام آباد میں قائد اعظم کی تصویر کے سامنے مبینہ غیر اخلاقی فوٹو شوٹ کروانے والے نوجوان کی گرفتاری کی خبر پر اگرچہ سوشل میڈیا صارفین برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم اسلام آباد پولیس نے تصدیق کی ہے کہ فوٹو شوٹ کروانے والے نوجوان کو گرفتار نہیں کیا گیا، انہوں نے قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔ سوشل میڈیا پر قائد اعظم کی تصویر کے سامنے فوٹو شوٹ کروانے والے نوجوان زلفی کی اسلام آباد پولیس اہلکاروں کے ساتھ کھچوائی گئی تصویر کو شیئر کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کی خبریں پھیلائی گئیں۔

نوجوان زلفی کی گرفتاری کی خبریں پھیلنے کے بعد فاطمہ بھٹو اور گلوکارہ میشا شفیع سمیت متعدد اہم شخصیات نے بھی برہمی کا اظہار کیا جب کہ عام افراد نے بھی ان کی گرفتاری کو بنیادی اظہار رائے کی آزادی کے خلاف قرار دیا۔ نوجوان زلفی کی گرفتاری کی خبریں وائرل ہونے کے بعد اسلام آباد کے ایڈیشنل ایس پی آپریشن فرحت کاظمی نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ نوجوان کی گرفتاری سے متعلق خبریں غلط ہیں۔ فرحت کاظمی نے بتایا کہ نوجوان کو لاہور سے گرفتار کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے قبل از وقت گرفتاری ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔ ایڈیشنل ایس پی آپریشن کا کہنا تھا کہ زلفی کیس کی تفتیش کے لیے پولیس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور معاونت کے سلسلے میں ہی وہ تھانے پیش ہوئے تھے، جہاں پر ریکارڈ کے لیے ان کے ساتھ پولیس اہلکاروں نے تصویر بنائی تھی، جسے شیئر کرنے کے بعد ان کی گرفتاری کی خبریں پھیلائی گئیں۔ نوجوان کی اسلام آباد پولیس کے ساتھ تصاویر شیئر ہونے کے بعد ان کی گرفتاری کی خبریں پھیلائی گئیں، جس پر کئی افراد نے برہمی کا اظہار بھی کیا۔ فاطمہ بھٹو نے نوجوان کی گرفتاری کو یوم آزادی کے موقع پر مینار پاکستان کے قریب 400 مرد حضرات کی جانب سے خاتون ٹک ٹاکر کو ہراساں کرنے کے واقعے سے جوڑا۔ انہوں نے لکھا کہ نوجوان کو اپنی ہی تصاویر کھینچنے پر گرفتار کیا گیا جب کہ خاتون پر حملہ کرنے والوں کو کچھ نہیں کیا گیا۔ گلوکارہ میشا شفیع نے بھی نوجوان کی گرفتاری کی خبر پر برہمی کا اظہار کیا،سوال اٹھایاکہ کیا ان کے فوٹو شوٹ سے بانی پاکستان کو کوئی مسئلہ ہوا ہوگا؟دونوں شخصیات کی طرح عام افراد نے بھی نوجوان کی گرفتاری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار کے خلاف قرار دیا اور ساتھ ہی ان کے واقعے کا ملک میں ہونے والے دیگر واقعات سے بھی موازنہ کیا۔