سپریم کورٹ کا پنجاب اور کے پی کے میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے گزشتہ روز صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
سپریم کور ٹ نے پنجاب اورخیبرپختونخوا کے اسپیکرز کی درخواستیں منظور کرلیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بینچ کے اکثر ججز نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کا13 صفحات پر تحریری فیصلہ بھی جاری کر دیا ہے،جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے دو صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ کے بعد فیصلہ تین دوکے تناسب سے سامنے آیا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے سامنے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ کا معاملہ آیا، آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے مطابق گورنر کی منظوری نہ ہونے پر پنجاب اسمبلی 48 گھنٹوں میں تحلیل ہوئی، خیبرپختونخوا اسمبلی کی صورتحال مختلف ہے،انتخابات دونوں صوبوں میں 90 روز میں ہونا ہیں،پارلیمانی جمہوریت آئین کا سیلینٹ فیچر ہے،جمہوریت میں پارلیمانی نظام ایک اہم ستون ہے۔
اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ کا اعلان بھی خود کر سکتا ہے،ایسی صورتحال خیبرپختونخوا اسمبلی میں ہوئی اور گورنر نے اسمبلی ختم کردی،سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی 14، کے پی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی،پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخط نا ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن گورنر اور صدر کے ساتھ ایڈوائس کا کردار ادا کرنے کا پابند ہے،خیبر پختونخواکی حد تک گورنر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے،گورنر خیبر پختونخوا نے انتخابات کا اعلان نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی کی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ صدر نے 9اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا،اس صورتحال میں الیکشن کمیشن نے اپنا کردار ادا نہیں کیا،اب الیکشن کمیشن صدر کے ساتھ مشاورت کرے اور معاملے کو حل کرے،وفاق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ لکھا اور کہا کہ پہلے سے 2درخواستیں موجودتھیں،پہلے سے موجود درخواستوں کو جلدی سننے کی کوشش کی گئی۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ منظور الہٰی اور بے نظیر بھٹو کیس کے فیصلے اس بارے میں واضح ہیں،جب ایک درخواست موجود ہو تو پھر اس کیس میں جلدی نہ ہو،منظورالہٰی اور بے نظیر کیس کے مطابق از خود نوٹس لینا نہیں بنتا، ہائیکورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ 90روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، سپریم کورٹ ایک ایپکس کورٹ ہے اس کو ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے،سپریم کورٹ کی ایسی مداخلت صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے،23فروری کو جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہرمن اللہ نے جو نوٹ دیا اس پر ہم مطمئن ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کیس میں سولہ فروری کو از خود نوٹس کے لئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا اس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کیلئے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے نو رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
پی ڈی ایم نے نو رکنی بینچ میں شامل دو ججز جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن پر اعتراض اٹھایا، جس پر دونوں ججز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا اور جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی بھی نو رکنی بینچ سے علیحدہ ہو گئے تھے، جس کے بعد نورکنی بینچ کی از سر نو تشکیل کرکے اسے پانچ رکنی کر دیا گیا تھا۔چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔