انصاف کے مندر سے ہتھوڑا بج رہا ہے، فضل الرحمٰن
ڈیرہ اسماعیل خان (قدرت روزنامہ) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جس بینچ پر پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کیا، اس کے سامنے کیسے پیش ہو جاؤں؟ چیف جسٹس انتہائی معزز کرسی پر بیٹھ کر ہماری توہین کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک شخص کی خوشنودی اور اسے تحفظ دینے کیلئے آپ پوری قوم کو ذلیل کررہے ہیں‘سپریم کورٹ اپنی پوزیشن واضح کرے کیا وہ ایک عدالت ہے یا پنچایت ہے؟ جس طرح وہ انصاف کے مندر سے ہتھوڑا بجا رہے ہیں، آئین کی رو سے 90 دن میں الیکشن کرانا ناگزیر ہے لیکن اگر عمران خان آپ سے کسی ایک تاریخ پر اتفاق کر لیں تو قبول ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کونسا آئین ہے، یہ کس آئین کا تقاضا ہے کہ وہ چاہیں تو پھر 90دن آئین کے تحت ناگزیر ہیں اور اگر عمران خان کسی اور تاریخ پر راضی ہوجائے تو وہ تاریخ ہمیں قبول ہوگی‘جس شخص کو اب تک نااہل ہوجانا چاہیے تھا، جس کو پاکستان کی سیاست کے دائرے سے باہر رکھا جانا چاہیے تھا، ہماری سپریم کورٹ اس کو سیاست کا محور بنا رہی ہے۔فضل الرحمن نے مزید کہا کہ اگر آپ نے جبر کی بنیاد پر ہم پر فیصلے مسلط کیے تو ہم بھی عوام کی عدالت میں جائیں گے۔
جمعرات کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فضل الرحمٰن نے کہا کہ اسمبلی قانون پاس کر چکی ہے، عدالت جس اختیار کے تحت ہمیں دھونس دکھا رہی ہے شاید اب اس کا وہ اختیار نہیں رہا ہے، اسے پارلیمنٹ کے ایکٹ کا احترام اور اس کی پیروی کرنی ہوگی۔سربراہ جے یو آئی نے مزید کہا کہ اگر عمران خان نے عمداً یہ حرکت نہیں کی تو پھر اسمبلیاں توڑ کر حماقت کی ہے، یہاں ایسے ایسے احمقانہ فیصلے کرتے ہیں اور عدالت ہمیں کہتی ہے اس ٹرک کے پیچھے چلیں، تو ہم عدالت کے اس جبر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پھر یہ ہو جائے گا، پھر ہو ہوجائے گا، بساط لپٹ جائے گی، کب تک ہمیں ان باتوں سے گمراہ بلیک میل کیا جاتا رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک دور تھا کہ ہمیں بندوق کے سائے میں کہا جاتا تھا کہ بات چیت کرو، آج ہمیں ہتھوڑے کے سامنے کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات اور بات چیت کریں۔ہم کس شخص سے بات کریں، وہ شخص جو کہتا ہے کہ میں الیکشن کے نتائج آنے کے بعد فیصلہ کروں گا کہ مجھے نتائج تسلیم ہیں یا نہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ چیف جسٹس اور آپ کے دو یا تین رفقا کو میں براہ راست کہنا چاہتا ہوں کہ آپ انتہائی معزز کرسی پر بیٹھ کر ہماری توہین کررہے ہیں، جب پارلیمنٹ سپریم ہے تو پھر اگر وہ ہمیں بلا سکتے ہیں تو پارلیمنٹ کیوں نہیں بلا سکتی۔ اگرسپریم کورٹ عمران خان کیلئے لچک پیدا کرسکتی ہے ہمارے لیے لچک پیدا کیوں نہیں کرسکتی ‘یہ جو واضح فریق بن کر کردار ادا کررہے ہیں تو استعفے دے کر سیاست میں آ جائیں۔