کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستا ن کی سیاسی جماعتوں نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں صوبے کی آبادی کو کم ظاہر کرکے منظوری پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی روش ہمیشہ سے بلوچستان کو ناانصافیوں زیادتیوں اور مشکلا ت کے دلدل میں دھکیلنے کےلئے کار فرمارہی ہیں اگر اب بھی طرز فکر میں تبدیلی نہ لائی گئی تو بلوچستان میں بداعتمادی کی فضاءپھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے خلاف سیاسی جماعتوں کا مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے پر غور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مردم شماری کو تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کیا 2018میں ڈیجیٹل مردم شماری کےلئے جو کاوشیں کی گئی اس میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار رہا ماضی میں ہونے والی مردم شماری کے دوران موبائل نیٹ ورک رابطہ سڑکیں ہمیشہ سے مشکلات کا باعث بنتا رہا بلوچستان میں دور دراز آبادیوں کے باعث مردم شماری کے عملے کا جانا مشکل ہوتا تھا2013کے بعد بلوچستان میں کسی حد تک کچی اور پکی سڑکیں بنائی گئی جس کا فائدہ مردم شماری کے عملے کو بھی ہوا گزشتہ 25سے30سال کے دوران امن و امان کا جو مسئلہ درپیش تھا وہ بھی اس ڈیجیٹل مردم شماری کے دوران کسی حد تک اطمینان بخش رہا 2018کی ڈیجیٹل مردم شماری کے دوران جہاں یہ امر قابل اطمینان رہے وہیں سیاسی جماعتوں نے اس مردم شماری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لوگوں کو مردم شماری سے متعلق شعور و آگہی دی اور لوگوں نے اس مردم شماری میں بھرپور حصہ لیا جس کے بعد 2018کی ڈیجیٹل مردم شماری سیاسی جماعتوں کے لئے بڑی حد تک قابل ا طمینان رہی تاہم سی سی آئی کے اجلاس میں بلوچستان کی آبادی کو 67لاکھ کم ظاہر کر کے منظوری دینا بلوچستان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے کیونکہ ماضی میں بھی بلوچستان کا استحصال اسکی آبادی کی بنیاد پر کیا جاتا رہا وسائل کی تقسیم روزگار کے مواقع اور اسمبلیوں میں نمائندگی سمیت دیگر اہم معاملات میں بلوچستان کی آبادی کو آڑے لاکر اپنے مفادات کے فیصلے کئے جاتے رہے اور اب ایک بار پھر جب بلوچستان کی آبادی کو کم کیا جارہا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک سوچا سمجھا مذموم منصوبہ ہے جس کے تحت بلوچستان کو ایک کالونی کی حیثیت دینے کی کوشش کی جارہی ہے انھوں نے کہا کہ اگر ڈیجیٹل مردم شماری قابل قبول نہیں تو اسے مکمل طورپر پورے پاکستان میں منسوخ کر دیا جائے مگر صرف اور صرف اس کا نزلہ بلوچستان پر گرانا ناانصافی ہے انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں ہم بلوچستان کی سیاسی مذہبی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ساتھ وفاقی جماعتوں سے منسلک رہنماﺅں سے بھی رابطے کر رہے ہیں اور ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دے کر سیاسی جمہوری جدوجہد کا آغاز کرینگے نیشنل پارٹی کے صدر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ سی سی آئی کا فیصلہ بلوچستان کے ساتھ سراسر ناانصافی اور ظلم پر منحصر ہے مرکز نے ہمیشہ بلوچستان کو سٹریٹجکلی دیکھا ہے جب کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کو نظر انداز کرنے کی روش برقرار رکھی ہماری قومی اسمبلی میں نشستیں پہلے ہی کم ہیں 2023کی مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی 21.5ملین ریکارڈ کی گئی تھی لیکن سی سی آئی کے اجلاس میں اس آبادی کو 67کروڑ کم ظاہر کر کے منظوری دے دی گئی ہے جو بلوچستان کے ساتھ زیادتی ہے انھوں نے کہا کہ ہم اس اجلاس کے نوٹیفکیشن کو مکمل طورپر مسترد کرتے ہیں اور اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی لائحہ عمل اختیار کیا جائے گاپشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی کو کم یا زیادہ کرنے کا کسی کو کیا اختیار ہو سکتا ہے ڈیجیٹل مردم شماری دور حاضر کی ایک ایسی مردم شماری ہے جسے سیاسی جماعتوں نے کسی نہ کسی حدتک قبول کیا مگر ایک بار پھر بلوچستان کی آبادی کو کم ظاہر کر کے یہاں کی سیاسی جماعتوں اور اقوام کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی گئی ہے اس طرح کے فیصلے روزگارکے مواقعوں اور وسائل کی تقسیم سمیت سیاسی نمائندگی پر اثر انداز ہونگے جسے پشتون بلوچ صوبے کے عوام کسی صورت قبول نہیں کرینگے انھوں نے کہا کہ اس فیصلے کے خلاف ہم جلد ہی اپنا لائحہ عمل طے کرینگے اگر اس فیصلے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی تو عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹا سکتے ہیں بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے سربراہ و صوبائی وزیر میر اسدبلوچ نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں ملک کی 25کروڑ کی آبادی کو تو تسلیم کر لیا گیا مگر بلوچستان کی 2کروڑ کی آبادی پر بھی قد غن لگادی گئی ہے جس کے بعد 67لاکھ آبادی کو خارج کر دیا گیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ بلوچستان کے ساتھ سراسر ناانصافی اور صوبے کے وسائل پر اہل بلوچستان کے حق کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے عوامی نیشنل پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر و صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ سی سی آئی کے اس فیصلے کو ہم کسی طورپر مناسب نہیں سمجھتے حالانکہ بلوچستان میں کئی ایسے علاقے تھے جہاں پر لوگوں میں یہ تشویش پائی جاتی تھی کہ ان کے علاقے میں مردم شماری نہیں ہوئی مگر اس کے باوجود جب اس مردم شماری کو قبول کر لیا گیا تو اس میں کٹ لگانا کسی صورت قابل قبول نہیں جس کے باعث ہمیں تحفظات درپیش ہیں اگر یہ کٹ نہ لگایا جاتا تو جہاں صوبے کو وسائل روزگار اور وفاقی اداروں میں نمائندگی کی شرح میں اضافہ ہوتا وہیں قومی اسمبلی کی نشستیں بھی بڑھ جاتی مگر اب جب کہ یہ کٹ لگادیا گیا ہے تو ایسے میں یہ ممکن نہیں انھوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے وسیع تر مفاد میں کئے جانے والے سیاسی فیصلوں اور لائحہ عمل میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ہمراہ ہے اور اس ضمن میں جو بھی فیصلہ کیا جائے گا اس میں ممکنہ طورپر اپنا مثبت کردار ادا کرے گی
. .