کوئٹہ(قدرت روزنامہ) 13 نومبر 1839ءکو انگریز سامراج نے خان محراب خان اور ساتھیوں کو شہید کر کے بلوچستان کی خودمختاری کو چھین لیا . برطانوی نوآبادیاتی پالیسیوں نے بلوچ سر زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا .
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ 13 نومبر تاریخی اعتبار سے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے . اس دن انگریز سامراج نے بلوچ سر زمین پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا اور بلوچ ریاست کے دفاع میں والی ریاست خان محراب خان سیکڑوں بلوچ فرزندان سمیت شہید ہوئے . ترجمان نے کہا کہ انگریز سامراج نے افعانستان پر حملہ کی مہم کے دوران بلوچ سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے اپنے فوجی قافلوں کی حفاظت کی غرض سے خان محراب خان کے ساتھ معاہدہ کیا اور اسکے فوری بعد افغانستان پر حملہ کر دیا مگر بلوچ افغان تاریخی رشتوں کے پیش نظر بولان کے راستے سے گزرتے ہوئے انگریز قافلے پر بلوچ قبائلیوں نے حملہ کر دیا جس سے انگریز فوجی قافلوں کو شدید نقصان پہنچا جسکی وجہ سے انگریز سامراج کو افغانستان پر چڑھائی کے دوران پہلی جنگ میں شکست کا سامنا ہوا . چونکہ انگریز سامراج اس خطے میں بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت سے پہلے ہی متاثر تھا افغان جنگ میں پسپائی کے بعد قلات پر چڑھائی کی ٹھان لیتے ہوئے 1839 کو جنرل ولشائر کی سربراہی میں قلات پر حملہ کر دیا جسکے خلاف مفاہمت کے بجائے مزاحمت کے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے خان محراب خان سیکڑوں ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے . ترجمان نے مزید کہا کہ خان محراب خان کی شہادت اور قلات پر انگریز قبضے کے بعد بھی بلوچ فرزندان سر خم تسلیم کرنے کے بجائے سامراجیت کے خلاف صف آراءہوئے اور جلد ہی انگریز سامراج کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے مگر مکار انگریزوں کی فارورڈ بلاک پالیسی کو نہ سمجھتے ہوئے مختلف معاہدات کئے جن میں 1854 کا معاہدہ عدم مداخلت بھی شامل تھا . برطانیہ کی تقسیم کرو اور حکومت کرو پالیسی نے جلد ہی بلوچستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا . انگریز سامراج نے ان سازشی معاہدات کے ذریعے بلوچ سر زمین کا مشرقی حصہ توڑ کر برٹش بلوچستان قائم کیا، گولڈ اسمتھ لائن کھینچ کر مشرقی حصے اور ڈیورنڈ لائن کے ذریعے شمالی حصے کو بلوچوں کی مرضی، منشاءاور مفادات کے بر خلاف تقسیم کیا گیا . ترجمان نے کہا کہ تقسیم در تقسیم کے باوجود بلوچ قوم نے اپنے سر زمین پر بیرونی تسلط کے خاتمے کے لئے جدوجہد جاری رکھا اور سامراج کے خلاف مزاحمت کو منظم سیاسی تحریک کی شکل دے کر 1920ءکی دہائی میں شروع کیا گیا اور بلوچ بلوچستان کی اصل حدود کی بحالی کے لئے مختلف طریقہ کاروں کو بروئے کار لایا گیا جو بعد ازاں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی شکل میں پابندی کے باوجود اپنا لوہا منوا لیتی ہے اور بالآخر 1947ءمیں انگریز سامراج مجبور ہو کر بلوچستان کی خودمختاری کا اعلان کر کے یہ خطہ چھوڑ کر چلا جاتا ہے مگر اس کی نوآبادیاتی پالیسیاں آج بھی پھل پھول رہے ہیں . ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ 13 نومبر ایک تاریخی دن ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بلوچ سر زمین کے لئے جس طرح ہمارے آباو¿ و اجداد نے اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کیا ہمیں بھی اس سر زمین کے دفاع کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے .
. .