اسلامی ریاست کا مطلب کسی کے سامنے جھکنا نہیں ہوتا، ہم خوددارقوم بنیں گے،پہلے ہم بڑی طاقتوں کے سامنے جھکتے تھے اب ایسا نہیں ہو گا، وزیر اعظم
انہوں نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلئے ضروری ہے کہ آپ ایک ایسا آزاد ذہن رکھیں جو ہر وقت آگے سے آگے بڑھنے کا سوچ رہا ہو، مجھے سے کہیں زیادہ باصلاحیت کھلاڑی موجود تھے لیکن میں ان سے آگے اس لیے پہنچا کیونکہ میں اپنے اہداف مقرر کرتا تھا کہ میں پاکستان کا سب سے بہتر آل راونڈر بننا چاہتا تھا اور پھر دنیا کا سب سے بہترین آل راؤنڈر بننے کا ہدف مقرر کیا . انہوں نے کہا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ اللہ نے آپ کو کتنی صلاحیتیں دی ہیں اور یاد رکھیں کہ آپ جتنا بڑا سوچیں گے، آپ اتنا ہی آگے بڑھیں گے اور آپ کو اتنا ہی ملے گا جتنی آپ محنت اور جدوجہد کریں گے . انہوںنے کہاکہ نوجوان پاکستان کے نظریے کو فروغ دیں، جن مسلمانوں نے ہندوستان میں رہ جانا تھا انہوں نے بھی پاکستان کے لیے ووٹ دیا تھا کیونکہ نظریہ پاکستان یہ تھا کہ ہم ایک ملک بنائیں گے جو مثالی اسلامی ریاست بنے گی . انہوں نے کہا کہ مثالی ریاست وہ ہوتی ہے جو خوددار ہو، جس میں انسانیت اور انصاف ہو، خوددار اسلامی ریاست کسی کے آگے نہیں جھکتی، پہلے ہم دنیا کی بڑی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے لیکن اب ہمارا خودداری کا جو مقصد ہے تو ہم ایسا نہیں کریں گے . عمران خان نے کہا کہ پختونخوا میں ہر خاندان کے پاس ہیلتھ انشورنس آ گئی ہے، ایک غریب گھرانہ کسی بھی ہسپتال میں 10لاکھ روپے کا علاج کرا سکتا ہے، ترقیاتی ملکوں میں بھی سب کو یکساں ہیلتھ انشورنس کی فراہمی نہیں ہے، ابھی ہمارے پاس بھی اتنے وسائل نہیں ہیں لیکن ہم اس سفر پر نکل گئے ہیں کہ ہم اپنے ملک کو فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں جس میں ہم زندگی کی ریس میں پیچھے رہ جانے والے کمزور کا معیار زندگی بلند کرنا چاہتے ہیں . نہوںنے کہاکہ فلاحی ریاست میں تیسری سب سے اہم چیز انصاف ہے، جس معاشرے میں قانون کی عملداری نہ ہو، وہ ترقی نہیں کر سکتا اور اب پاکستان کا سفر اس طرف شروع ہو گیا ہے جس میں پہلے میرٹ کو ترجیح دی جا رہی ہے . انہوں نے کہا کہ معاشرے میں انصاف ہوتا ہے تو میرٹ ہوتا ہے، عمران خان کے دوست، کزن، رشتے دار بڑے عہدوں پر نہیں ہیں کیونکہ یہاں میرٹ ہے اور اس کے بھی بہت اثرات مرتب ہوں گے . وزیراعظم نے کہا کہ قانون کی عملداری سب سے اہم ہے تاکہ طاقتور کو قانون کے دائرے میں لایا جائے، پچھلے تین سالوں سے ہماری حکومت سے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم طاقتور سے کہہ رہے ہیں کہ تم بھی جوابدہ ہو اور اگر آپ نے چوری کی ہے تو آپ کا احتساب ہو گا . انہوں نے کہا کہ جس قوم میں خودداری نہ ہو اور جو امداد اور بھیک مانگے، وہ کبھی ترقی نہیں کرتی . اس موقع پر انہوں نے میڈیا میں سچائی کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جتنا آپ سچ اور حقائق کو بیان کریں گے، اتنا ہی اونچا مرتبہ حاصل کریں گے، صحافت میں بھی یہ چیز بہت اہمیت کی حامل ہے . وزیراعظم نے کہا کہ ایک صحافی جعلی اور جھوٹی خبر چلا کر ایک مرتبہ فائدہ اٹھا لے گا لیکن وہ زیادہ عرصے تک چل نہیں سکتا، اس کی کوئی ساکھ نہیں ہے اور صحافت میں سب سے اہم چیز آپ کی ساکھ ہوتی ہے . انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ چاہوں گا کہ آپ سچ لکھیں، تنقید کریں تو درست تنقید کریں، اگر ہماری حکومت کرپشن نہیں کررہی اور ملک کے قانون نہیں توڑ رہی تو ہمیں آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا سے کوئی فرق نہیں پڑتا، فرق ان کو پڑتا ہے جو چوری کررہے ہوں کیونکہ وہ صحافت کو کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں، آمر قانون توڑ رہے ہوں تو وہ میڈیا اور عدلیہ کو کنٹرول کرتے ہیں . انہوںنے کہاکہ میں چیلنج کرتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جس نے میڈیا کو اتنی آزادی دی ہو، آپ صرف یہ نکال کر دیکھ لیں کہ تین سال میں کتنی خبریں ہمارے حق میں لگی ہیں اور کتنی ہمارے خلاف لگی ہیں، کتنے پروگرام ہمارے حق میں اور کتنے خلاف ہوئے ہیں، میں گارنٹی دیتا ہوں کہ 70فیصد پروگرام ہمارے خلاف گئے ہیں . عمران خان نے کہا کہ اس سے بڑی زیادتی کیا ہو گی کہ ایک ملک کے وزیراعظم کو کہہ رہے ہیں کہ اس نے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کو زائچہ نکال کر نامزد کیا ہے، یہ ایک اہم اخبار کے فرنٹ پیج پر لکھا تھا، یہی انگلینڈ میں لکھتے تو مجھے لاکھوں ڈالرز ہتک عزت کی مد میں ملتے جو میں اپنی چیریٹی میں بھیج دیتا اور شوکت خانم کو اس سے بہت فائدہ ہوتا . انہوں نے کہا ہک پاکستان کے میڈیا کو اتنی آزادی کبھی نہیں تھی جتنی آج ہے کیونکہ ہمیں فکر نہیں ہے لیکن ہمیں مسئلہ جعلی خبروں اور پراپیگنڈے سے ہے، ذرا سوچیں کہ باہر کے لوگ کیا سوچ رہے ہوں گے کہ ملک کا وزیر اعظم زائچہ نکال کر وزیر اعظم بناتا ہے اور اس سیاستدان کے لیے کتنی بڑی توہین ہے جو 30سال سے آزاد کشمیر میں نچلی سطح سے سیاست کرتا ہوا آ رہا ہے کہ وہ زائچہ نکال کر منتخب ہو گیا اور یہ بات ملک کے لیے بھی شرمندگی کا باعث ہے . انہوں نے کہا کہ پہلے سرکاری میڈیا کو پراپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، لوگوں کے اربوں روپے چوری کر کے باہر لے گئے اور ان کا سارا مقصد یہی ہوتا تھا اور وہ میڈیا کو رشوت دیتے تھے کہ کسی طرح ان کی چوری چھپ جائے جبکہ عدلیہ میں بھی لوگوں کو رشوت دیتے تھے تاکہ ان کے کیسز نہ سنیں جائیں کیونکہ ان کے پاس چھپانے کے لیے بہت کچھ تھا . عمران خان نے نوجوانوں سے کہا کہ وہ نئے آئیڈیا کا سوچیں کیونکہ انسانی تاریخ میں نوجوانوں کو کبھی اتنے وسائل میسر نہ تھی کہ 25، 25سال کے لڑکے ارب پتی بن گئے اور انہوں نے اپنے کاروبار شروع کردئیے لہٰذا ہماری حکومت بھی آپ کو پوری طرح سہولیات فراہم کرے گی . . .