چیئرمین ارسا کی تعیناتی پر مسلم لیگ (ن) کو پیپلزپارٹی، اپوزیشن کی تنقید کا سامنا


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو گزشتہ روز قومی اسمبلی میں مبینہ سیاسی انتقام پر نہ صرف اپوزیشن نے آڑے ہاتھوں لیا بلکہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے چیئرمین کی یکطرفہ تعیناتی پر اہم اتحادی جماعت پیپلزپارٹی نے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ شاہ کی سربراہی میں 4 روز بعد ہوا، اجلاس میں سابق وزیراعظم اور بانی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ناانصافی کا بالآخر 44 سال بعد اعتراف پر سپریم کورٹ کو سراہا گیا اور انہیں ’قومی ہیرو‘ قرار دینے کی قرارداد پیش کی گئی۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ اس تاریخی فیصلے کی روشنی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کیس میں دیے گئے غیر منصفانہ فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
اس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکومت ذوالفقار علی بھٹو کو سرکاری طور پر ’شہید‘ اور ’قومی جمہوری ہیرو‘ قرار دے اور حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والے اور جانیں قربان کرنے والے کارکنوں کے لیے نشانِ ذوالفقار علی بھٹو ایوارڈ قائم کرے۔
قرارداد میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان پاکستان سے نوازنے کا بھی مطالبہ کیا گیا، قرارداد کی منظوری کے بعد چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر علی خان نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کی جماعت نے مذکورہ قرارداد کی حمایت نہیں کی، اس لیے اسے ’متفقہ طور پر منظور شدہ قرارداد‘ نہیں کہا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا تو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس میں صدر آصف زرداری نے بھی نہیں کی تھی۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے قرارداد پیش کرنے والی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے بیرسٹر گوہر کے ان ریمارکس پر احتجاج کیا اور انہیں ’پریشان کن‘ قرار دیا۔
چیئرمین ارسا کی تعیناتی
اجلاس کی کارروائی کی سب سے خاص بات پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر کی جارحانہ تقریر تھی، جس میں انہوں نے چیئرمین ارسا کی ’یکطرفہ‘ تعیناتی پر حکومت کی مذمت کی اور وزیراعظم شہباز شریف پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر اپنا حکم واپس لیں۔
نوید قمر (جن کی جماعت پیپلزپارٹی نے کابینہ کا حصہ بنے بغیر مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت حکمران اتحاد کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا) نے نگران حکومت کی جانب سے جاری کردہ ’غیرآئینی اور غیرقانونی آرڈیننس‘ کی بنیاد پر مذکورہ تعیناتی کرنے پر وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے نوید قمر نے وزیر اعظم کی جانب سے چیئرمین ارسا کی تعیناتی کے اقدام کو ’انتہائی سنگین، غیرقانونی اور غیر آئینی‘ قرار دیا۔
ایوان میں ’شیم، شیم‘ کے نعروں کی گونج کے دوران تقریر کرتے ہوئے نوید قمر نے کہا کہ ارسا ایکٹ میں یہ شرط موجود ہے کہ ارسا کی چیئرپرسن شپ باری باری صوبوں کے حصے میں آئے گی لیکن نگران حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے صوبوں کا یہ اختیار چھین کر وزیر اعظم کو دے دیا۔
نوید قمر نے کہا کہ ایک اہم پالیسی میں تبدیلی نگران حکومت کا اختیار یا استحقاق نہیں تھا، نگران حکومت کا کام صرف ریاست کے روزمرہ کے امور کو سرانجام دینا ہوتا ہے، ایسا اقدام جس میں مشترکہ مفادات کی کونسل (سی آئی آئی) کی اتھارٹی کو بھی شامل نہیں کیا گیا دراصل آئین کی صریح خلاف ورزی ہے لہٰذا اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں حکومت سے درخواست کروں گا کہ وہ اس حکم نامے کو فوری طور پر واپس لے، اس ملک کے قوانین اور آئین کی پاسداری کرے، صوبوں کے حقوق غصب نہ کرے اور بطور فیڈریشن پاکستان کو تباہ نہ کرے، اگر ہم آغاز میں ہی صوبوں کے حقوق غصب کرنے لگیں گے تو بطور فیڈریشن کام کیسے کریں گے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ نوید قمر نے حکومت سے جواب طلب کیا لیکن ایوان میں موجود 2 وزرا رانا تنویر اور جام کمال نے وزیراعظم کے اس عمل کا دفاع نہ کرنے کو ترجیح دی۔
چیف الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کے مطالبہ
ایوان سے خطاب کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی عمر ایوب نے کہا کہ ایسی اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ حکومت چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا کو کینیڈا میں ہائی کمشنر مقرر کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ حکومت دوبارہ گنتی کے ذریعے پی ٹی آئی کو کم از کم 20 نشستوں سے محروم کرنا چاہتی ہے۔
عمر ایوب نے پی ٹی آئی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر ارکان کے استعفے کے مطالبے کو دہرایا۔
رہنما پی ٹی آئی نے پارٹی کے ان 2 کارکنوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا جو 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں فوج کی حراست میں ہیں، انہوں نے پی ٹی آئی اراکین کو جیل میں قید عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ دینے پر حکومت کی مذمت کی۔
پی ٹی آئی کے لطیف کھوسہ نے ایوان میں خطاب میں 8 فروری کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کے دوران 10 مارچ کو لاہور میں اپنی گرفتاری کا معاملہ اٹھایا۔
بھٹو ریفرنس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے لطیف کھوسہ نے امید ظاہر کی کہ اس نتیجے پر پہنچنے میں 44 سال نہیں لگیں گے کہ ایک اور مقبول رہنما عمران خان جیل میں بند ہیں اور 9 مئی کا واقعہ ان کو اور ان کی پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے ایک منظم اقدام تھا۔