وزراء اور افسر شاہی کی مراعات، معیشت پر بوجھ


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)حکومت نے تنخواؤں اور پنشن سمیت سرکاری اخراجات میں کٹوتی کے لیے نئی کمیٹی کے قیام کا اعلان کردیا ہے۔
کمیٹی وفاقی حکومت کے سائز میں کمی کے لیے پہلی تمام کمیٹیوں کی رپورٹس کا جائزہ بھی لے گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق صوبوں کے اختیارات کی منتقلی کے باوجود ڈیڑھ درجن کے قریب وزارتیں ابھی تک وفاقی سطح پر فعال ہیں۔
ملک کو درپیش معاشی بحران کے باعث نومنتخب صدر مملکت آصف علی زرداری، وفاقی وزراء محسن نقوی اور عبد العلیم خان نے تنخواہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ صدر مملکت اور وفاقی وزرا کے اس اعلان سے معیشت پر جو بوجھ ہے وہ تو نہیں ہٹے گا، تاہم یہ ایک اچھی روایت ہے،کیونکہ اس سے کسی نہ کسی طرح معاشی مشکلات کم کرنے میں مدد ملے گی۔
پاکستان میں صدر مملکت، وزیر اعظم آفس، گورنر اور صوبوں کے وزیر اعلیٰ کے دفتروں کے سالانہ شاہانہ اخراجات ملک کے تعلیمی اور صحت کے بجٹ سے زیادہ ہیں۔ اس وقت ملک میں سرکاری اہلکاروں کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جن کی قیمت کھربوں میں ہے اور یہ گاڑیاں سالانہ پٹرول اور مرمت کی مد میں اربوں روپے خرچ کرتی ہیں، جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ امریکا جیسے امیر اور طاقتور ملک میں ماسوائے چند اداروں کے کسی کے پاس سرکاری گاڑی نہیں ہوتی، یہی حال دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔
رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے لیکن مہنگائی کا طوفان کسی طور تھمنے میں نہیں آ رہا ہے۔ ملک کے سیاست دان، سرکاری عہدے دار اور مراعات یافتہ طبقہ کے عیش و عشرت کا ہی کہنا۔ معمولی کٹوتی پر بڑی سی اقامت گاہ جس میں بجلی کے کئی سو یونٹ مفت، بڑی بڑی گاڑیاں اور ان کے لیے پٹرول گویا ان کا حق ہے۔ اس کے بعد بالخصوص سرکاری اداروں میں مالی بدعنوانی اور رشوت ستانی ایک الگ باب ہے۔
پچھلے دنوں بجلی کے مفت یونٹس پر بھی سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام نے اشرافیہ اور سرکاری افسران کی بے حسی اور عیاشیوں پر خوب برہمی اور شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ ہر سرکاری ادارے میں یہ افسر شاہی اپنی طاقت کی دھونس و دھاندلی چلاتی نظر آتی ہے۔ یہ اپنی نااہلیوں کا بوجھ ایک دوسرے کے کندھوں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتی ہے۔
ملکی بگاڑ میں ان سب کا برابرکا حصہ ہے۔ پاکستان بھر کے محنت کش عوام کی آمدن ایک طرف رکھیں اور دوسری طرف اس افسر شاہی کی مراعات تو محنت کش طبقے کی آمدن اس کا دس فیصد بھی نہیں بنتی۔ اتنی مراعات کے باوجود یہ رشوت لینا اپنا قانونی حق تصورکرتے ہیں، کسی بھی ادارے میں بغیر رشوت کے عوام کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس ملک کا مراعات یافتہ طبقہ اس کی تباہی کا ذریعہ بن رہا ہے۔
یہاں جس کو سب سے زیادہ تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں وہ سب سے زیادہ کرپشن اور استحصال کرتا ہے اور جس کو جتنا اختیار دیا جاتا وہ اس کو اپنے ذاتی فائدے یا کسی اور کے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اس لیے یہاں قانون کی پاسداری کہیں نظر نہیں آتی۔ حکومت اس قدر بے بس و لاچار ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ عمومی طور پر آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ عوام الناس کے کمزورکاندھوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس صورتحال پر اکثر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ نازک ملکی معیشت کی وجہ سے حکومت کو جو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، ان کا بوجھ غریب آدمی پر ڈالنے کے بجائے اشرافیہ اور حکمران طبقے پر منتقل ہونا چاہیے۔ یہ بات قابل جواز ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے عوام الناس کو توکفایت شعاری کا درس دیا جاتا ہے، لیکن وزیروں، مشیروں، سرکاری افسروں اور دیگر اعلیٰ عہدیداران کی مراعات اور سہولیات اسی طرح جاری رہتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ صورتحال عام آدمی کے لیے تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ عام شہری اپنے آپ کو قربانی کا بکرا محسوس کرنے لگتا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی شہر میں سرکاری گاڑیوں کو سرکاری افسروں کی بیگمات، بچوں اور رشتے داروں کو بے دریغ استعمال کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
ہفتے اور اتوارکو چھٹی ہوتی ہے اس دن بھی یہ ساری گاڑیاں آپ کو مارکیٹوں اور دیگر جگہوں پر اس اشرافیہ کی خدمت میں ملیں گی۔ پاکستان میں چپڑاسی ہر دفتر میں ہوتے ہیں اگر پاکستان میں چپڑاسیوں کی کل تعداد دیکھی جائے تو یہ لاکھوں میں ہیں۔
امریکا، یورپ اور دیگر دنیا میں اس کا تصور تک نہیں ہے۔ پاکستان میں ہم سرکاری ملازم بھرتی کرنے کے بعد اس کی خدمت کے لیے بھی کئی نوکر بھرتی کرتے ہیں، جب کہ دنیا میں جس کو نوکری کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے وہ اپنے سارے کام ایمانداری کے ساتھ خود کرتا ہے، مگر پاکستان میں بھرتی ہونے والا ملازم نہ اپنا کام ایمانداری کے ساتھ کرتا ہے اور نہ ہی اپنے ماتحتوں کو ایمانداری سے کام کرنے دیتا ہے۔
یہ سارے ماتحت ریاست اور حکومت کی جگہ اس نوکر کے ذاتی مفادات کا خیال رکھتے ہیں اس مقصد کے لیے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے جاتے ہیں اور اس مقصد میں ریاست یا حکومت کا نقصان ہو تو اس کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔ اب تو سرکاری افسران ہر وقت لمبا ہاتھ مارنے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ ملک میں جتنے اسمگلر ہیں ان کی سہولت کاری یہی کرتے ہیں۔ ٹمبر مافیا، قبضہ مافیا، ٹینکر مافیا، شوگر مافیا، بھتہ مافیا یہاں تک کہ بھیک مانگنے والا مافیا بھی ان سرکاری اہلکاروں کی مدد و تعاون سے اپنا کام کر رہا ہے۔
سرکاری افسران اور وزراء اپنے گاڑی کے شیشے کالے کروا سکتے ہیں،کلاشنکوف بردار رکھ سکتے ہیں، عدالت سے سزا پانے کے بعد بھی اپنے ہی گھر پر رہ سکتے ہیں۔ کسی بھی شہر میں جائیں تو اس شہر کی پولیس شاہراہیں خالی کر کے سیکڑوں کی تعداد میں جلوس کی شکل میں پروٹوکولز دیتی نظر آتی ہے اور جو شہری پورا پورا ٹیکس دے اسے کسی قسم کی سہولت حاصل نہیں ہے۔یوں بھی حکومتی وزیروں، سرکاری افسران اور اراکین پارلیمان کا پروٹوکول اکثر و بیشتر میڈیا پر زیر بحث رہتا ہے۔ ایک وزیر یا افسر کے پیچھے درجنوں گاڑیوں کا قافلہ چلتا ہے۔
پولیس کی گاڑیاں بھی اس قافلے میں شامل ہوتی ہیں۔ اس طرح سیکڑوں لیٹر پٹرول ضایع ہوتا ہے۔ پولیس جسے امن عامہ کی صورتحال بہتر بنانے کی ذمے داری نبھانی ہوتی ہے، وہ اس کے بجائے حکومتی اراکین اور افسران کے پروٹوکول کی ذمے داری نبھانے میں مصروف رہتی ہے۔ ٹی وی پر ایسے مناظر دیکھ کر عام آدمی کا دل جلتا ہے،اگر ایک عام پاکستانی محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پال سکتا ہے تو یہ لوگ بھی اپنی ماہانہ تنخواہ پرگزر اوقات کرنا سیکھیں۔ ان کے دفتروں کے ایئرکنڈیشن ہر وقت چلتے ہیں۔
پتہ ہے بل انھوں نے ادا نہیں کرنا، سرکاری گاڑیاں ان کے ذاتی استعمال کے ساتھ ساتھ ان کے اہل و عیال کے زیر استعمال بھی رہتی ہیں، ان کے گھرکی سبزی تک سرکاری گاڑی میں آتی ہے، کیونکہ غریب عوام کے خون پسینہ سے ان کی گاڑیوں میں ایندھن ڈالا جاتا ہے۔ ان تمام قربانیوں کے باوجود عوام پریشان رہتے ہیں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے حکومت اشیاء پر سبسڈی نہیں دے سکتی۔ غربت اور مہنگائی ایک حقیقت ہیں، حکومت قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کے لیے اپنے اخراجات میں کمی کرے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ حکومت میں آنے والا ہر فرد اورگروہ یہی کہتا ہے کہ معاشی حالات کے پیش نظر حکومت عوام کو ریلیف دینے سے قاصر ہے اور معیشت کی بحالی کے لیے آئے روز مہنگائی کے طوفان لا کر عوام پر مزید اقتصادی بوجھ ڈالا جا رہا ہے، اگر حکومت معاشی حالات کے پیش نظر اخراجات میں کمی کے لیے واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے اسے ان مراعات کو ختم کرنا چاہیے جو سرکاری افسران کو بجلی،گیس اور پٹرول کی صورت میں دی جا رہی ہیں۔ ان سب اشیاء کا بوجھ بھی قومی خزانے پر ہی پڑتا ہے۔
اس بدترین مہنگائی کے دور میں بیس تیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا عام آدمی یہ اخراجات اپنی جیب سے پورے کرنے پر مجبور ہے، جس کے لیے ان حالات میں دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ترین ہو چکا ہے۔ جب عام آدمی بجلی، گیس اور پٹرول کے اخراجات اپنی جیب سے پورے کر سکتا ہے تو لاکھوں میں تنخواہیں لینے والے سرکاری افسران کیوں نہیں کرسکتے؟ جب تک سرکاری مراعات کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، نہ اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہے نہ قومی خزانے پر بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔
رہی بات مہنگے پٹرول اور دوسری اشیاء پر سبسڈی نہ دینے کی بات تو حقیقت یہ ہے کہ اشرافیہ پر قومی خزانہ بے دریغ لٹایا جا رہا ہے لیکن جب عوام کو ریلیف دینے کی بات کی جاتی ہے تو یہ بھاشن دیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی وجہ سے عوام کو سبسڈی نہیں دی جاسکتی۔ کیا معاہدے کی تمام پابندیاں صرف عوام کے لیے ہیں، طاقتور طبقات ان پابندیوں سے مستثنیٰ کیوں ہیں؟
ہمیں ملک میں ڈیجیٹل انتظام کو متعارف کروانا ہوگا۔ چند بنیادی کاموں کے علاوہ باقی سارے کام دنیا کی طرح پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے ہوں گے۔ ملک میں کام کرنے والوں کو صرف تنخواہ دینی ہوگی، باقی تمام مراعات اور سہولیات ختم کرنا ہوں گی، اس لیے کہ ان پر اٹھنے والے اخراجات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ان کو مزید یہ ریاست برداشت نہیں کر سکتی۔
ملک کے لوگوں کو روزگار کے جانب لائے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں ہے، اگر حکومت نے خسارے سے نکالنا ہے اور پاکستان نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو پھر اسے اپنے انتظامی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہو گا۔