ایئرپورٹس آؤٹ سورس ہونے میں کتنا وقت لگے گا اور مسافروں کو کیا سہولیات میسر آئیں گی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)یہ بات کئی برسوں سے زیر گردش ہے کہ پاکستان اپنے ایئرپورٹس آؤٹ سورس کرنے جارہا ہے۔ اب یہ معاملہ کافی حد تک آگے بڑھ چکا ہے اور کچھ ممالک اس میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ انسپکشن کا عمل بھی جاری ہے۔
ایوی ایشن پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی آفتاب خان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی ملک کے 3 بڑے ایئرپورٹس آؤٹ سورس کرنے جارہی ہے جن میں اسلام آباد، کراچی اور لاہور ایئرپورٹ شامل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ لینڈ سائٹ کی آؤٹ سورسنگ ہے، یعنی ٹرمینل بلڈنگ اورباہر کی جوزمین ہے، ’اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ ایئرسائٹ کی آؤٹ سورسنگ اس میں شامل ہے، ایئرسائٹ کا ایریا ایئرپورٹ کے ٹارمک، ایپرن، رن وے اور ایئر ٹریفک کنٹرولر سمیت دیگر شعبہ جات پرمشتمل ہے‘۔
آفتاب خان نے کہاکہ اگر ہم لینڈ سائٹ کی بات کرتے ہیں تو اس میں ایئرپورٹ کی حدود میں تمام کاروبار کرنے والی دکانیں، پارکنگ کا ٹھیکہ، کلیننگ کا ٹھیکہ اور پورٹر سروس سمیت دیگر سروسز شامل ہیں۔ ’یہ ایک طویل سفر ہے اور اس میں بہت وقت لگ سکتا ہے‘۔
آفتاب خان کے مطابق ہوسکتا ہے کہ جو ملک اس کام کے حصول میں کامیاب ہوجائے تو ان کی کمپنی ایئرپورٹ کے بیرونی مقام پر گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے کوئی ملٹی اسٹوری بلڈنگ بنائے یا پھر کوئی ٹو اسٹار یا تھری اسٹارہوٹل بنالے۔ ’اس کے ساتھ ساتھ کمپنی کوئی اور بھی ترقیاتی کام کرسکتی ہے جو مسافروں کی سہولت میں شمار ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہاکہ اسی طرح مسافروں کے لیے ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل لاؤنجز میں کوئی سہولیات مہیا کی جاسکتی ہیں جیسا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے مساج چیئرز رکھی گئی ہیں جہاں کوئی بھی مسافر اپنی تھکن اتار سکتا ہے یا پھر وہاں پر فری چائے اور کافی کا بھی انتظام رکھا گیا ہے۔
آفتاب خان کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پی آئی اے انتظامیہ کو کچھ عرصہ قبل خط لکھا تھا، جس میں ان سے اپنی زمین کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ’یہ حاصل کردہ زمین بھی آؤٹ سورسنگ والی کمپنی کے حوالے کی جائے گی جبکہ ایئرلائنز کے دفاترکی لینڈ بھی آؤٹ سورس میں کامیاب ہونے والی کمپنی کے پاس جائے گی‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں پرایک چیز کا فرق واضح کردوں کہ نجکاری میں کوئی بھی پراپرٹی مکمل طور پرفروخت کر دی جاتی ہے، مگر آؤٹ سورسنگ کا مطلب یہ ہے کہ ملکیت سرکار کے پاس ہی رہے گی، صرف ایک معینہ مدت تک ایئرپورٹس کی حدود کسی کمپنی کے حوالے کردی جائے گی۔