گندم کو سرکاری طور پر برآمد کرنے کےلئے پی ڈی ایم حکومت میں فوڈ سیکورٹی کے وزیر طارق بشیر چیمہ نے 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی سمری منظور کی، تاہم 8 اگست کو ای سی سی نے اسے موخر کردیا . نگراں حکومت میں وزیر اعظم ہاﺅس بھیجی گئی سمری کی انوارالحق کاکڑ نے بطور وزیر فوڈ سیکورٹی منظوری دی اور سرکاری کے علاوہ نجی سیکٹر کو بھی ساتھ ملانے کی تجویز دے دی . وزارت خزانہ نے گندم کو سرکاری طور پر درآمد کرنے کی مخالفت کی اور نجی سیکٹر کے ذریعے گندم لانے کی حمایت کی . دستاویزات کے مطابق یکم نومبر کو ای سی سی نے گندم سرکاری طور پر لانے کی سمری منظور کی تاہم ٹی سی پی کے 2 بار دیے گئے ٹینڈز پر کوئی بولی نہ لگی . دستاویز کے مطابق 10 لاکھ ٹن گندم لانے کی سمری منظور ہوئی مگر ٹی سی پی نے نا جانے کس طرح ٹینڈر 11 لاکھ ٹن کا دے دیا . 19 دسمبر کو ویٹ بورڈ کے اجلاس میں گندم کی درآمد بڑھا کر 24 لاکھ ٹن کردی گئی، ای سی سی کی منظوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اجلاس کو بتایا گیا کہ 12 لاکھ ٹن گندم لے کر 24 جہاز پہنچ بھی چکے ہیں جبکہ اس کی منظوری ای سی سی نے یکم فروری کو دی تھی . دستاویزات کے مطابق 14 فروری کو ویٹ بورڈ کے اجلاس میں تجاویز آئیں کہ گندم پہنچنے کی مدت ایک ماہ بڑھا کر 31 مارچ کردی جائے . دستاویزات کے مطابق 23 فروری کو اس مدت کی منظوری بھی دے دی گئی، یہ مدت بڑھانے کی وجہ مزید 15 لاکھ ٹن گندم ملک میں لانا تھی اور اس اجلاس میں 19 فروری کو گندم سے متعلقہ ایسوسی ایشنز کے ساتھ ہونے والے اجلاس اور ان کی جانب سے دی جانے والی لسٹ کا حوالہ بھی دیا گیا . بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی، موجودہ حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف نے 4 مارچ کو حلف اٹھایا، اس کے بعد بھی پورا ماہ گندم ملک میں آتی رہی . 26 مارچ کو وزیر خزانہ کی صدارت میں ویٹ بورڈ کا اجلاس ہوا، جس میں گندم برآمد کرنے کی وجوہات سامنے لانے کی بجائے گندم لے کر آنے والے جہازوں کی چیکنگ کی اجازت دی گئی، وجہ یہ بتائی گئی کہ ایسوی ایشنز کی دی گئی لسٹ کو نظر انداز کیا گیا ہے . . .
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)پنجاب کے کسانوں کے لیے گلے کا پھندا بننے والا گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ کس حکومت نے کیا؟سرکاری دستاویزات میں سامنے آنے والی معلومات نے گندم کی امپورٹ میں نگراں حکومت کے زیادہ کردار کی نشاندہی کردی ہے . کسانوں کےلئے ڈراﺅنا خواب بن جانے والاگندم اسکینڈل چونکا دینے والے حقائق سے بھرپور ہے .
متعلقہ خبریں