حکومت اپنے بیشتر اہداف حاصل کرنے میں ناکام،قومی اقتصادی سروے پیش کردیاگیا


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی سال 2023-24 کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت استحکام کی جانب گامزن ہے، مہنگائی پر قابو پا لیا گیا ہے اور ہم اصلاحات کے عمل کو مرحلہ وار آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مزید قرضے لینا نہیں چاہتے، اگر لینا پڑا تو اپنی شرائط پر لیں گے، اور جو بچت قرضوں کی ادائیگی سے حاصل ہوگی اسے دیگر اہم شعبوں میں منتقل کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران قرضوں کی ادائیگی میں 800 ارب روپے کی بچت ہوئی، پنشن اصلاحات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور حکومت آنے والے دنوں میں 43 وزارتوں اور 400 سے زائد ماتحت اداروں کی رائٹ سائزنگ کرے گی۔ اس عمل کو مرحلہ وار آگے لے جایا جا رہا ہے اور متعدد وزارتوں و محکموں کو ضم کیا جا رہا ہے تاکہ اخراجات میں کمی اور کارکردگی میں بہتری لائی جا سکے۔
محمد اورنگزیب نے بتایا کہ جولائی سے مئی کے درمیان ٹیکس وصولی میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ فائلرز کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔ ریٹیلرز کی رجسٹریشن میں 74 فیصد اضافہ ہوا، جو ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی بڑی پیش رفت ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ٹی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستانی فری لانسرز نے 40 کروڑ ڈالر کمائے، جو ڈیجیٹل معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بیرونی شعبہ دوہرے بحرانوں کا شکار رہا، تاہم اس کے باوجود روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کی بدولت ترسیلات زر میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رواں سال ترسیلات زر 37 سے 38 ارب ڈالر کے درمیان رہنے کا امکان ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ملکی معیشت پر اعتماد مضبوط ہوا ہے۔
وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ بھارت نے پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام کو رکوانے کے لیے بھرپور کوشش کی۔ ان کے مطابق بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے خاص طور پر یہ کوشش کی کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی دوسری قسط نہ ملے، تاہم حکومت نے تمام چیلنجز پر قابو پایا۔
معاشی اشاریوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران صنعتی شعبے میں 6 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا، خدمات کے شعبے میں 2.9 فیصد اور تعمیرات کے شعبے میں 1.3 فیصد نمو ہوئی۔ زرعی شعبہ کمزور رہا اور محض 0.6 فیصد ترقی کر سکا۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں 3 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ ملک کا جاری کھاتوں کا خسارہ ختم ہو کر سرپلس میں آ چکا ہے جبکہ اکاؤنٹس 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ گزشتہ 20 برس میں پہلی مرتبہ پرائمری بیلنس سرپلس میں آیا ہے۔ معیشت کا حجم 372 ارب ڈالر سے بڑھ کر 411 ارب ڈالر ہو چکا ہے جبکہ فی کس آمدنی 162 ڈالر اضافے کے ساتھ 1824 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
بی آئی ایس پی (بینظیر انکم سپورٹ پروگرام) کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے اور اب یہ 593 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس پروگرام کے تحت 99 لاکھ خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ اسی طرح اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت 16 ہزار نوجوانوں کو آئی ٹی تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ مقامی و عالمی مارکیٹ میں ملازمت کے لیے تیار ہو سکیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی سے 52.6 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 25.9 فیصد اضافے سے 10 ہزار 234 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ برآمدات میں بھی 6.8 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 27.3 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 46 ہزار 604 میگاواٹ ہے، جبکہ 56 ہزار نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد رکھا گیا تھا، تاہم اصل نمو 2.7 فیصد رہی۔ زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 2 فیصد تھا، مگر یہ 0.6 فیصد پر محدود رہی، جبکہ خدمات کے شعبے کی ترقی 4.1 فیصد کے مقابلے میں 2.9 فیصد رہی۔
رواں مالی سال بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ کپاس کی پیداوار میں 30.7 فیصد کمی آئی، جبکہ دیگر فصلوں کی پیداوار میں 4.8 فیصد کا اضافہ ہوا۔ سبزیوں کی پیداوار میں 7.8 فیصد اور پھلوں کی پیداوار میں 4.1 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ لائیو اسٹاک کی پیداوار 4.4 فیصد سے بڑھ کر 4.7 فیصد تک پہنچ گئی اور مویشیوں کی آبادی میں 3.77 فیصد کا اضافہ ہوا۔
پیٹرولیم مصنوعات کی شرح نمو 4.5 فیصد، فارماسیوٹیکل میں 2.3 فیصد اضافہ، جبکہ کیمیکل سیکٹر میں 5.5 فیصد کمی دیکھی گئی۔ کان کنی اور کھدائی کے شعبے میں شرح نمو 3.4 فیصد رہی۔
مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 14.2 فیصد تھا مگر اصل شرح 13.8 فیصد رہی۔ فکسڈ سرمایہ کاری 12.5 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 12 فیصد، اور نجی سرمایہ کاری 9.7 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 9.1 فیصد رہی۔ اسٹیٹ بینک کے ذخائر 9.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 11.4 ارب ڈالر ہو گئے، جبکہ نان ٹیکس آمدن میں 69.9 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 4.23 کھرب روپے تک پہنچ گئی۔
تاہم، اقتصادی رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے محصولات میں اضافے کے باوجود رواں مالی سال کا مقررہ اصل اور نظرثانی شدہ ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔
معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھی سروے میں ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عالمی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ حالیہ سیلاب کے باعث 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ سال 2024 میں پاکستان میں اوسط درجہ حرارت 23.52 ڈگری رہا جبکہ سال بھر میں معمول سے 31 فیصد زائد بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔
اقتصادی سروے پر ردعمل کا سلسلہ بھی جاری ہے