5 سال میں صرف 65 ارب روپے مختص، اعلیٰ تعلیم کا شعبہ شدید مشکلات کا شکار
لاہور / کراچی(قدرت روزنامہ)5 سالوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ معمولی 65ارب روپے تک محدود کردیا گیا۔
ہائی ایجوکیشن سیکٹر کے لیے فنڈز کم کئے جانے کے باعث پورے ملک میں اداروں کو برقرار رکھنا اور ترقی دینا مشکل ہوگیا۔ سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ نقدی کی کمی اور وفاقی فنڈز میں کٹوتی سے بری طرح متاثر تعلیمی اداروں کے تناظر میں پاکستان میں اعلی تعلیم کا مسقبل کیا ہوگا؟
ملک کو جب بھی معاشی زوال کا سامنا ہوتا ہے تو حکومت بڑی آسانی سے اعلی تعلیم کے لیے مختص وسائل کو کم کرکے اپنی کفایت شعاری شروع کردیتی ہے۔ انتہائی ناقص منصوبہ بندی پر مبنی اس کفایت شعاری کی قیمت پاکستان میں پہلے سے وسائل کی کمی کے ستائے ماہرین تعلیم اور علمی افراد کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ یا پھر فنڈز کی اس کمی کی زد میں ترقیاتی منصوبے آتے ہیں۔
حالیہ کساد بازاری کا منفی اثر اگرچہ زندگی کے تمام شعبوں پر پڑا ہے تاہم اس معاشی سست روی سے گزشتہ پانچ سالوں میں ہائیر ایجوکیشن سیکٹر بالکل جمود کا شکار ہوگیا اور وفاقی حکومت کے حالیہ فنڈز کی کٹوتی کے فیصلوں کے پیش نظر مستقبل قریب میں بھی یہ شعبہ مزید ابتری کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
حالیہ کاٹ کھانے والی مہنگائی میں فنڈز کی کٹوتی کا اعلان ملک بھر کی ان یونیورسٹیوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جو پہلے ہی فنڈز کی کمی، وائس چانسلرز کی کی عدم تقرریوں، تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں، ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے روکے جانے جیسے مسائل کا شکار ہیں۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ صوبائی یونیورسٹیوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے۔ اگر صوبے بجٹ فراہم کرنے کے قابل نہ ہوں اور وفاق بھی فنڈز کو محدود کردے تو یہ یونیورسٹیاں اپنے معاملات کیسے چلا سکتی ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں سے وفاقی حکومت نے انتہائی معمولی 65ارب روپے مختص کر رکھے ہیں۔ ہم نے وفاق سے اگلے مالی سال کے دوران 126ارب روپے فراہم کرنے کی درخواست کی ہے لیکن کوئی فیصلہ نہ کیا جا سکا۔
سندھ اور بلوچستان میں سرکاری یونیورسٹیوں کے خستہ حالات بیان کرتے ہوئے فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن (ایف اے پی یو اے ایس اے )کے پریذیڈنٹ کلیم اللہ بریچ نے انکشاف کیا کہ گزشتہ سال دسمبر میں یونیورسٹی ٹیچرز اور عملے نے تنخواہوںؒ کی عدم ادائیگی پر دھرنا دیا تھا۔
شاہ عبد اللطیف یونیورسٹی خیر پور کے پروفیسر اور ’’ایف اے پی یو اے ایس اے ‘‘ کے سنٹرل جنرل سیکرٹری ڈاکٹر اختیار گھمرو نے کہا ہماری یونیورسٹی اس وقت 20کروڑ روپے کے اوور ڈرافٹ کے مسئلے کا سامنا کر رہی ہے۔ سندھ یونیورسٹی جام شورو اور ایگری کلچرل یونیورسٹی ٹنڈو جام بھی اسی طرح ادائیگیوں کے دباؤ میں ہیں۔
سندھ میں ایک سرکاری یونیورسٹی کے وی سی نے کہا ہم نے ایک خاص حد تک ٹیوشن فیس بڑھا دی ہے لیکن یہ مالیاتی خسارے کا یہ مستقل حل نہیں ہے۔ اس بے روزگاری اور غربت کے زمانے میں فیسز بڑھانے سے والدین پر اضافی بوجھ آئے گا۔
ایکسپریس ٹریبون کی جانب سے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند سالوں سے سندھ کی یونیورسٹیوں کو اپنے سالانہ بجٹ کے تناسب سے ملنے والے مختص حصے میں بڑی کمی لائی گئی ہے۔ مثال کے طور پر فیڈرل اردو یونیورسٹی نے 14سال قبل بجٹ کا 65فیصد حصہ وصول کیا تھا لیکن اب یہ اپنے بجٹ کا صرف 28فیصد حصہ وصول کر رہی ہے۔
اسی طرح این ای ڈی یونیورسٹی کا حصہ بھی 51فیصد سے کم ہوکر 31فیصد اور کراچی یونیورسٹی کو بجٹ کی نسبت ملنے والا حصہ 48فیصد سے کم ہوکر 30فیصد پر آگیا ہے۔ پنجاب میں بھی تعلیمی ز وال کی کہانی مختلف نہیں ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن پنجاب کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ 36سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 28یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلرز سے محروم ہیں اور اس کی وجہ سے ریسرچ، ڈویلپمنٹ اور پالیسی میکنگ منجمد ہوکر رہی گئی ہے۔پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس، لاہور کالج ویمن یونیورسٹی، جی سی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف فیصل آباد اور ایجوکیشن یونیورسٹی ان یونیورسٹیوں میں شامل ہیں جن یونیورسٹیوں نے 2018سے ایچ ای سی سے گرانٹ وصول نہیں کی۔
پنجاب یونیورسٹی کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے ترجمان امجد مگسی نے بتایا کہ یونیورسٹیوں میں کوئی نئی ریسرچ ہوئی نہ ہی کوئی ترقیاتی کام ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں طلبہ کے اکیڈمک اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر سمجھوتہ کرنا پڑ رہا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں بھی اعلی تعلیم کے اداروں کے حالات انتہائی خراب ہیں۔
صوبائی ہائر ایجوکیشن سیکٹر کو معمولی وسائل کی فراہمی کا مسئلہ یونیورسٹی کیمپس کوآرڈینیشن کمیٹی اینڈ یونیورسٹی آف ایگری کلچر کے چیئر مین ڈاکٹر جہاں بخت کے وزیر اعلی خیبر پی کے کو لکھے گئے خط سے واضح ہوجاتا ہے۔
اسلامیہ کالج ٹیچر ایسوسی ایشن کے وائس پریذیڈنٹ شاہ نواز خان نے انکشاف کیا کہ اسلامیہ کالج کے پاس سٹاف کو مئی اور جون کی تنخواہیں دینے کی استعداد نہیں ہے۔
گورنر سیکریٹریٹ کے ذرائع سے معلوم کیا کہ خیبر پی کے کی 34یونیورسٹیاں اس وقت سرپلس خسارے کا سامنا کر رہی ہیں۔ انجینیرنگ یونیورسٹی پشاور کو 977ملین، پشاور یونیورسٹی کو 470ملین، گومل یونیورسٹی کو 434ملین اور ایگری کلچر یونیورسٹی کو 188ملین روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ اسلامیہ کالج کی وفاقی گرانٹ 447.318ملین سے کم ہوکر 446.2ملین روپے پر آگئی۔
ایچ ای سی پنجاب کے سابق سربراہ ڈاکٹر ناظم نے کہا ہے کہ پنجاب میں ایجوکیشن ایمرجنسی نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی اور عالمی ماہرین تعلیم کی مدد سے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ٹیکنالوجیکل ترقی دینے کی بھی ضرورت ہے۔
خیبر پی کے وزیر برائے ہائر ایجوکیشن مینا خان آفریدی نے کہا خیبر پی کے حکومت یونیورسٹیوں کو مشکلات میں ڈالنے والے مالیاتی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے۔ ہم جلد یونیورسٹیز ایکٹ 2012میں ترمیم کے لیے اجلاس طلب کریں گے۔