فضائی آلودگی دنیا میں قبل از وقت اموات کی دوسری بڑی وجہ، تحقیق
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اقوام متحدہ نے فضائی آلودگی کو دنیا میں قبل از اموات کی دوسری بڑی وجہ قرار دے دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور غیرسرکاری ادارے اسٹیٹ آف گلوبل ایئر (سوگا) کی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 میں فضائی آلودگی کے نتیجے میں 81 لاکھ اموات ہوئیں، اس وقت دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو فضائی آلودگی کے باعث سنگین بیماریاں لاحق ہیں اور دنیا میں طبی نظام، معیشت اور معاشرہ خطرے سے دوچار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 5 سال سے کم عمر بچوں کو فضائی آلودگی سے زیادہ خطرہ ہے جو 2021 میں اس عمر کے 7 لاکھ بچوں کی اموات کا سبب بنی۔
فضا میں پائے جانے والے ذرات خرابی صحت کا سبب
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں فضائی آلودگی سے بیشتر اموات فضا میں پائے جانے والے باریک ذرات (پی ایم 2.5) کے سانس کے ذریعے منہ میں جانے سے ہوتی ہیں، یہ ذرات معدنی ایندھن کے جلنے، نقل و حمل، رہائشی عمارتوں اور جنگلات میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور انہیں دنیا بھر میں خرابی صحت کا متواتر اور واضح سبب گردانا جاتا ہے۔
گھریلو سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی، اوزون (او3) اور گاڑیوں کے دھوئیں سے نکلنے والی نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (این او 2) کا بھی دنیا بھر میں انسانی صحت کی خرابی میں نمایاں کردار ہے۔
غیرسرکاری ادارے ہیلتھ ایفیکٹس انسٹیٹیوٹ (ایچ ای آئی) کی صدر ایلینا کرافٹ نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ رپورٹ اس معاملے میں تبدیلی کا محرک ثابت ہو گی، ان کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی سے انسانی صحت بڑے پیمانے پر متاثر ہو رہی ہے، تاہم فضائی معیار اور عالمگیر صحت عامہ کو بہتر بنانا ممکن ہے۔
فضائی آلودگی سے روزانہ 2 ہزار بچوں کی اموات
رپورٹ کے مطابق دنیا میں چھوٹے بچوں کی 20 فیصد اموات فضائی آلودگی کے باعث ہوتی ہیں، کم آمدنی والے ممالک میں بچوں کو نمونیا اور دمے جیسی سانس کی بیماریوں سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
یونیسف کی نائب ایگزیکٹو ڈائریکٹر کِٹی وان ڈر ہیجن نے کہا ہے کہ روزانہ 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 2 ہزار بچے فضائی آلودگی کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔
گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ
غیرسرکاری ادارے ہیلتھ ایفیکٹس انسٹیٹیوٹ میں شعبہ عالمگیر صحت کی سربراہ ڈاکٹر پلاوی پنت نے کہا ہے نئی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ فضائی آلودگی سے انسانی صحت پر سنگین منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، چھوٹے بچوں، معمر لوگوں اور کم و متوسط آمدنی والے ممالک کو اس سے خاص طور پر خطرات لاحق ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شہروں اور ممالک کو اپنی طبی پالیسیاں ترتیب دیتے وقت فضائی معیار اور فضائی آلودگی کو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک عوامل کے طور پر مدنظر رکھنا چاہیے۔ اسی طرح غیرمتعدی بیماریوں کی روک تھام اور ان پر قابو پانے کے پروگراموں میں بھی فضائی آلودگی کے مسئلے کو زیرغور لانا ضروری ہے۔
پی ایم 2.5 جیسے آلودہ ذرات لوگوں کی صحت پر اثرانداز ہونے کے ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار میں بھی اضافہ کرتے ہیں جو کرہ ارض کو گرم کررہی ہیں۔
’جب زمین گرم ہوتی ہے تو جن علاقوں میں این او 2 کی مقدار زیادہ ہو وہاں اوزون گیس بھی بڑی سطح پر محسوس کی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ خرابی صحت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔‘
مثبت پیشرفت
سوگا کی رپورٹ میں انسانی صحت پر فضائی آلودگی کے مضراثرات کی تفصیلات کے ساتھ یہ دعوے بھی کیے جاتے ہیں کہ اب لوگ گھریلو سرگرمیوں کے نتیجے میں پھیلنے والی فضائی آلودگی کے نقصانات سے بہتر طور پر آگاہ ہیں، کھانا بنانے کے لیے ماحول دوست توانائی تک رسائی میں اضافے کے نتیجے میں سن 2000 کے بعد پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات میں 53 فیصد تک کمی آئی ہے۔
دنیا کے جن علاقوں میں فضائی آلودگی زیادہ ہے وہاں اس کی نگرانی کے نیٹ ورک قائم کر کے اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسی طرح فضائی معیار سے متعلق کڑی پالیسیوں کا نفاذ بھی عمل میں لایا جارہا ہے اور ایسے اقدامات افریقہ، لاطینی امریکا اور ایشیا میں خاص طور پر نمایاں ہیں۔