ڈیرہ بگٹی میں نایاب تیندوے کے شکار واقعہ، حکومت نے 7افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا

کوئٹہ (قدرت روزنامہ)بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں مقامی افراد نے ایک نایاب نسل کے تیندوے کو مار ڈالا ہے، واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد حکومت نے 7افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔حکام کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ 8ماہ کے دوران معدومی کے خطرے سے دو چار نایاب لیپرڈ کے شکار کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی محمد اعجاز سرور نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ نایاب تیندوے کے شکار کا واقعہ ڈیرہ بگٹی کے دور دراز پہاڑی علاقے زین لوٹی میں پیش آیا ہے۔بلوچستان کے علاقے نانی مندر کے قریب طویل عرصے بعد تیندوے کی آمدہوئی ، ذرائع کے مطابق تیندوے کی موجودگی کی اطلاع چرواہوں نے دیہاتیوں کو دی جس کے بعد وہ اسلحہ لے کر جمع ہوئے اور تیندوے کو ڈھونڈنے نکل پڑے۔تیندوا پہاڑ میں موجود ایک غار میں چھپ گیا تھا مگر مسلح افرادنے پاوں کے نشانات کی مدد سے وہاں تک اس کا پیچھا کیا اور اسے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ اس کے بعد اس کی ویڈیو بھی بنائی ۔انہوں نے بتایا کہ ڈیرہ بگٹی کی مقامی بلوچی زبان میں اس جانور کو ڈیہوی کہا جاتاہے ۔ گذشتہ سال بھی اس جانور کا غیر قانونی شکار کیاگیا تھا۔ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی کے مطابق انتظامیہ کو اس واقعے کی اطلاع سوشل میڈیا پر ویڈیو سامنے آنے کے بعد ہی ملی جس کے بعد مقامی لوگوں کی مدد سے ملزمان کی تلاش شروع کردی گئی۔انہوں نے بتایا کہ سات ملزمان کی شناخت کرکے ان کے خلاف بلوچستان وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔سیکریٹری جنگلات و جنگلی حیات بلوچستان دوستین جمالدینی کے مطابق واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر کوئٹہ سے خصوصی ٹیم بھیجی جارہی ہے تاکہ واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جاسکیں۔بلوچستان میں نیشنل پارکس اور محکمہ جنگلی حیات کے کنزویٹر عرض محمد نے غیر ملکی نشریاتے ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد ان کی گرفتاری کے لیے دیگر سکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر کوششیں کررہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ شکار کیا گیا تیندوا لیپرڈ ہے جس کی نسل کو معدومی کا خطرہ ہے ۔ اسے نقصان پہنچانا بلوچستان کے جنگلی حیات کے تحفظ کے 2014 کے قانون کے تحت جرم ہے اور اس کی کم از کم سزا تین ماہ قید اور جانور کے قدر کے برابر جرمانہ لاگو ہوتا ہے۔دنیا میں پرشیئن لیپرڈ کے بالغ جانوروں کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہونے کی وجہ سے عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت (آئی یو سی این )نے 2016سے معدومی کے خطرے سے دو چار جانوروں کی فہرست یعنی ریڈ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔محکمہ جنگلی حیات کے مطابق یہ تین ماہ کے دوران تیندوے کے شکار کا دوسرا واقعہ ہے۔اس سے پہلے اپریل میں بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے کنڈ ملیر میں نانی مندر کے قریب دیکھے گئے تیندوے کا کچھ دنوں بعد پیر بمبل کے علاقے میں شکار کیا گیا تھا۔گذشتہ سال دسمبر میں بھی ڈیرہ بگٹی کے علاقے نیلغ میں تیندوے کے شکار کی خبر سامنے آئی تھی۔کنزویٹر وائلڈ لائف بلوچستان عرض محمد کے مطابق دو سالوں کے دوران ڈیرہ بگٹی میں تیندوے کے شکار کا یہ دوسرا اور گزشتہ چھ سالوں میں بلوچستان میں یہ چھٹا واقعہ ہے ۔ اس سے پہلے کوئٹہ کے قریب مستونگ، لسبیلہ اور مکران میں اس طرز کے واقعات پیش آچکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر واقعات میں ملزمان کی شناخت نہیں ہوسکی تھی جس کی وجہ سے تاحال سزا سے بچے ہوئے ہیں۔ تاہم نئے کیس میں ویڈیو میں واضح طو ر پر نظر آنے کی وجہ سے ملزمان کی شناخت ہوئی ہے۔نیشنل پارکس اور جنگلی حیات کے کنزویٹر ر عرض محمد کے مطابق تیندوے کے تحفظ میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے ان میں محکمہ جنگلی حیات کے عملے کی استعداد ، تربیت اور وسائل کی کمی ،مقامی لوگوں میں جنگلی حیات کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے عدم تعاون ،دور دراز علاقوں میں سکیورٹی محکمہ جنگلی حیات کی ٹیموں کو رسائی میں مشکلات، چیتے کی آبادی ، مسکن اور نقل و حرکت کے راستوں ، تیندوے اور اس کی کھال ، ہڈیوں اور دیگر اعضا کے غیر قانونی تجارت سے متعلق معلومات کی عدم دستیابی بڑے چیلنجز ہیں۔ان کے مطابق تیندوے محفوظ قرار دیئے گئے علاقوں سے باہر بھی پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے تحفظ میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔اسی طرح پہاڑی و جنگلی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر، کان کنی و دیگر منصوبے،موسمیاتی تبدیلیاں اور شکار میں کمی بھی نایاب جنگلی جانوروں کے مسکن اور نقل و حرکت میں خلل ڈالتے ہیں۔عرض محمد کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ان چیلنجز اور خطرات سے نمٹنا بہت ضروری ہے۔ لیپرڈ پاکستان میں پائی جانےو الی تیندوں کی تین نسلوں میں سے ایک ہے ۔مقامی بلوچی زبان میں اسے پولنگ ، پشتو میں پڑانگ اور براہوی زبان میں خہلیغاکہتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ آرمینیا، آذر بائیجان، ترکی، ترکمانستان، افغانستان میں بھی اس قسم کے پائے جاتے ہیں مگر اس کا اصل مسکن ایران کو سمجھا جاتا ہے اسی لیے اسے پرشیئن لیپرڈ یا فارسی تیندوے کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ خیبر پشتونخوا، سندھ اور بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں اس کا مسکن ہنگول نیشنل پارک سمیت کیرتھر پہاڑی سلسلے کے دیگر علاقے، ہزارگنجی نیشنل پارک اور کوہ چلتن ہے۔ مئی 2021میں کوئٹہ کے قریب ہزارگنجی نیشنل پارک میں اس کے ایک جوڑے کی محکمہ جنگلی حیات نے عکس بندی کی تھی۔چھوٹی ٹانگوں اور بھاری جسامت کے حامل اس جانور کی پیلے اور سنہری مائل بھوری رنگ کی کھال پر سیاہ دھبے ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں محکمہ جنگلی حیات کے سربراہ شریف الدین بلوچ کے مطابق یہ آبادی سے دور بلند پہاڑیوں میں رہتا ہے اور اکیلا رہنے کا عادی ہے۔ صرف میلاپ یا پھر بچے کی پرورش کے دوران جوڑے کی صورت میں رہتا ہے۔تیندوے کو قدرتی و ماحولیاتی نظام کے سب سے بڑے شکاریوں میں سے شمار کیا جاتا ہے ۔ یہ سبزہ خور پہاڑی جانوروں بالخصوص مارخوروں کو چست رکھنے، ان کی آبادی کو کنٹرول کرنے، قدرتی ماحول اور حیاتیاتی تنوع میں توازن پیدا کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔رواں سال جنوری میں کیرتھر پہاڑی سلسلے میں سندھ کے علاقے بچل سونہیرو میں مقامی لوگوں نے تیندوے کو گولی مار کر ماردیا تھا جس پر محکمہ جنگلی حیات سندھ نے پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور تیندوے کی لاش بھی کوٹڑی کی عدالت میں پیش کی تھی۔شریف الدین بلوچ کے مطابق تیندوا اپنی خوراک کے لیے آبادی سے دور پہاڑی و جنگلی بکریاں، مار خور، اڑیال ، چنکارا وغیرہ کا شکار کرتا ہے لیکن جب خوراک کی کمی کی وجہ سے یہ جانور مال مویشیوں کے شکار کے لیے آبادی کے قریب جاتا ہے تو انسانوں سے اس کا ٹکرا ہونے کی صورت میں مارا جاتا ہے۔ بعض لوگ فرسودہ روایت کے تحت بھی تیندوے یا شیر کا شکار کرکے اس عمل کو بہادری سے تعبیرکرتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی نسل کو خطرہ لاحق ہے۔آئی یو سی این کے مطابق پاکستان میں سالانہ چھ تیندوں کا مارا جاتا ہے۔ 1998 سے 2015 تک پاکستان میں تیندوے مارے جانے کے 105 واقعات رپورٹ ہوئے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف مونٹانا کی 2007 کی ایک تحقیق کے مطابق1989 سے 2007 تک ایوبیہ نیشنل پارک میں تیندوں کے حملوں میں 16 انسان مارے گئے ۔ اسی دورانیے میں انسانوں کے ہاتھوں 44 تیندوں کی موت ہوئی۔آئی یو سی این کے مطابق پاکستان میں فارسی تیندوے کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ تک ہوسکتی ہے تاہم عرض محمد کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بلوچستان میں طویل عرصے سےاس کی تعداد کا درست تخمینہ لگانے کے لیے کوئی سروے نہیں ہوا ۔ نئے سروے کی فوری ضرورت ہے ۔جنگلی حیات کے تحفظ پر کام کرنےوالے عالمی ادارے اور ماہرین نے پاکستان میں نایاب نسل کے جانوروں بالخصوص تیندوں کے تحفظ کے لیے تحقیق اور اقدامات پر زور دیا ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کا کہنا ہے کہ تیندوے کے قدرتی مسکن کے قریب رہنےو الے لوگوں کے ساتھ مل کر اس جانور کے تحفظ کے لیے کام نہ کیا گیا تو کئی دیگر جانوروں کی طرح فارسی تیندوے کی نسل بھی پاکستان میں معدوم ہوسکتی ہے۔