ریلی کے آغاز سے قبل بلیدہ زامران سے لاپتہ افراد کے لواحقین کی کثیر تعداد نے بلیدہ سے آکر ریلی میں شامل ہوگئے جن میں خواتین وبچے اور بوڑھے شامل تھے . ریلی کے شرکا نے مولانا عبدالحق بلوچ چوک سے پیدل مارچ کرتے ہوئے مین بازار کا گشت کرکے شہید فدا چوک پر احتجاجی جلسہ کیا جہاں لاپتہ افراد کے لواحقین نے خطاب کیا . بلیدہ سے لاپتہ مسلم عارف کے والد عارف بلوچ نے کہاکہ میرے بیٹے کو لاپتہ ہوئے ایک سال کا عرصہ مکمل ہوچکاہے میں نے ہر ادارے کے دروازے پر دستک دی ہے،بیٹے کی بازیابی کیلئے ہر ا±س شخص وادارے کے پاو¿ں پکڑے ہیں مگر میں سمیت دیگر لواحقین کو صرف طفلی تسلیاں دی جارہی ہیں . ہم نے بلیدہ سے آکر عید سے پہلے احتجاج کیاہے ہمیں چند دن کی مہلت دینے کا کہاگیا تھا مگر اس دن سے لیکر آج تک ہم سے صرف جھوٹے وعدے کیے جا رہے ہیں ہمیں انصاف فراہم کرکے ہمارے پیارے بازیاب کیے جائیں . لاپتہ جان محمد کے بیٹے میران بلوچ نے کہاکہ میرے والد صاحب کو بارہ سال پہلے لاپتہ کیاگیاہے اس دن سے لیکر آج تک ہمیں نہیں بتایا جارہا ہے کہ والد صاحب کہاں ہیں ہمیں بتایا جائے کہ وہ کہاں ہیں صرف اسی سوال کو لیے میں سڑکوں پر ہوں . ستر سالہ بزرگ میار بلوچ نے کہا کہ میں اب بڑھاپے میں پہنچا ہوں میرے بیٹے کو لاپتا ہوئے ایک سال کا عرصہ مکمل ہوگیا، اسے بازیاب کیا جائے مجھ سے بیٹے کی جدائی کا غم سہا نہیں جارہا ہے، میں بیٹے کی بازیابی کیلئے اسلام آباد تک مارچ کیا مگر انصاف نہیں مل رہا . پیدارک کیچ سے تعلق رکھنے والے میران وسمیر کے اہلخانہ نے کہاکہ ہمارے لاپتہ نوجوان گھر کے کفیل تھے اور وہ آج سے ایک سال پہلے لاپتہ کیے گئے ہیں ہم مجبور ہیں، آج سڑکوں پر اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے نکلے ہیں ہمیں ہمارے پیارے واپس کیے جائیں . لاپتہ نثار کریم کی بوڑھی والدہ نے روتے ہوئے کہاکہ میرے بیٹے کو بازیاب کرکے مجھ پر رحم کیا جائے، میرا بیٹا میرا سرمایہ ہے، مجھے انصاف چاہیے . جہانزیب فضل کے اہلخانہ نے کہا کہ جہانزیب فضل کو ایک سال پہلے دکان سے اٹھایا گیا مگر ابھی وہ لاپتہ ہے، ہم نے انصاف کیلئے آئینی وقانونی راستہ اپنایا، احتجاج کے سوا دوسرا راستہ ہمارے پاس نہیں، بے حسن حکمران ہمیں انصاف فراہم نہیں کررہے ہیں . ولید یوسف کے اہلخانہ نے کہاکہ اسے گزشتہ رات گھر سے اٹھا یا گیا ہے، جھوٹے مقدمات بناکر ہمارے بھائی کو لاپتہ کیا گیا ہے، ہم نے مجبوراً احتجاج کا راستہ لیا ہے . لواحقین کا کہنا تھا کہ ہمیں سرکاری ادارے اسٹامپ پیپر کے ذریعے یہ کہہ کر دستخط کرنے کا کہتے ہیں کہ ہمارے لاپتہ جوان کسی کارروائی میں ملوث تھے جبکہ ہمیں پتہ ہے، ہمارے پیارے بے قصور ہیں، جھوٹے مقدمات اور جھوٹے الزامات پر ہم کسی بھی کاغذ پر دستخط کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں . اس موقع مختلف سیاسی وسماجی تنظیموں کے ذمہ داران ریلی میں شامل تھے، جن میں تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست، بی ایس او کے سابقہ چیئرمین ظریف رند، حق دو تحریک کے حاجی ناصر پلیزئی و دیگر ذمہ داران، بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ، نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی، مرکزی جمعیت اہلحدیث کیچ، بی ایس او پجار کے ضلعی صدر یاسر بیبگر، مہران عطا، نوید تاج، بی ایس او کے احمد بلوچ، تربت سول سوسائٹی کے ڈپٹی کنوینر جمیل عمر دشتی اور دیگر شامل تھے . دھرنے میں مرد وخواتین کے علاوہ بزرگوں اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی . یاد رہے کہ کیچ کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے خاندانوں کی جانب گزشتہ گیارہ دنوں سے ضلعی انتظامیہ کے دفتر کے سامنے دھرنا دیاگیاہے،کیمپ میں مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے رہنما بھی موجود ہیں . . .
تربت(قدرت روزنامہ)لاپتہ افرادکے لواحقین کی جانب دھرنے کے گیارہ دن مکمل ہونے پر احتجاجی عظیم الشان ریلی کا انعقاد کیاگیا . ریلی کا آغاز مولانا عبدالحق بلوچ چوک سے کیاگیا جہاں ریلی کے شرکا نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینر اٹھائے تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی،اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کرنے کیساتھ لاپتہ افراد کی تصاویر بھی شامل تھیں .
متعلقہ خبریں