بجلی کی ہوشربا قیمتوں اور آئی پی پیز کو ادائیگیوں کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بجلی کی ہوشربا قیمتوں اور آئی پی پیز کو کیپیسٹی پیمنٹس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائرکردی گئی ہے۔
پاکستان کے پاس بجلی کی پیداواری صلاحیت 46 ہزار میگاواٹ، بجلی کی ترسیل کے نظام کی صلاحیت 23 ہزار میگاواٹ جبکہ پاکستان میں بجلی کی روزانہ طلب 15 ہزار میگاواٹ سے کم ہے۔
اس سب کے باوجود پاکستانی عوام 20 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی کی کیپیسٹی پیمنٹ کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ بجلی بنانے والے بند پلانٹس کی بجلی خریداری کے معاہدوں میں یہی لکھا ہوا ہے۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر امتیاز گل نے سپریم کورٹ میں بجلی کی ہوش ربا قیمتوں اور کیپیسٹی پے منٹس کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا ہے کہ بجلی کی ہوشربا قیمتوں کا بڑا سبب کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں کی جانے والی ادائیگیاں ہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ بین الاقوامی معاہدوں کے معاملات بہت پیچیدہ ہیں، ان معاہدوں میں بین الاقوامی قوانین آڑے آتے ہیں، اس لیے درخواست گزار کی استدعا صرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تحت چلنے والے پاور پلانٹس سے متعلق ہے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ نجی ملکیت میں بجلی گھروں کے ساتھ ساتھ وفاقی اور سرکاری حکومتوں کے ماتحت بجلی گھر بھی ڈالروں میں منافع لے رہے ہیں جو کہ ایک سنگین مذاق اور ڈکیتی ہے۔
درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں مداخلت کرے اور کم از کم 10 سال کی مدت تک جب تک ملک کی معیشت مستحکم نہیں ہوجاتی, تمام وفاقی اور صوبائی حکومت کے ماتحت چلنے والے بجلی گھروں کو اپنے اثاثہ جات پر منافع لینے سے روک دیا جائے۔
درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ بجلی کے نرخ اور منافع کی شرح ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں طے کی جائے، یہ بجلی گھر چونکہ غیر معمولی منافع کماتے ہیں، اس لیے ان کے اسٹاف کی تنخواہیں اور انتظامی اخراجات غیرمعمولی حد تک زیادہ ہوتے ہیں جنہیں 50 فیصد تک کم کرنے کی ضرورت ہے۔
’بجلی خریداری کے مرکزی ادارے کی جانب سے تاخیر سے کی جانے والی ادائیگیوں پر بھی آئی پی پیز منافع کماتی ہیں کیونکہ ان کو کریڈٹ لائن میسر ہوتی ہے، اس منافع کی تحقیقات کرائی جائیں اور قیمتوں میں کمی لائی جائے۔‘
درخواست گزار نے مزید استدعا کی ہے کہ بجلی کی ترسیل کے ذمے دار وفاقی ادارے نیشنل ٹرانسمشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کو نان پرافٹ ادارہ قرار دیا جائے اور اس کے ترقیانی منصوبوں کو وفاقی حکومت فنڈز مہیا کر کے اسے منافع خوری سے بچائے۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا ہے کہ حکومت نے 2015 سے لے کر اب تک آر ایل این جی اور گیس پر چلنے والے 26 بجلی بنانے والے کارخانوں کو کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ایک ہزار ارب روپے کی ادائیگیاں کی ہیں، مالی سال 25-2024 میں پاکستان کو بجلی بنانے والے کارخانوں کو 3 ہزار ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیں، جن میں 1160 ارب بجلی کی قیمت جبکہ 1950 ارب روپے کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔
درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ 90 کی دہائی کے وسط سے لے کر اب تک پاکستان آئی پی پیز کو ٹیکس کی مد میں 1217 ارب روپے کی چھوٹ دے چکا ہے، جن میں مقامی، غیر ملکی اور سرکاری بجلی بنانے والے کارخانے شامل ہیں، تمام بجلی بنانے والی کمپنیوں کے منافع کی شرح 15 سے 29 فیصد کے درمیان ہے جبکہ منافع کی شرح ڈالر میں طے ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ روپے کی قدر کم ہونے سے ان کو فائدہ پہنچتا ہے۔
درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ 2028 تک جب داسو، بھاشا، منڈا، کوہالہ اور سوکی کناری کے 11 ہزار میگاواٹ کے پن بجلی منصوبے فعال ہو جائیں گے تو کیپیسٹی پیمنٹس کا مسئلہ اور سنگین ہوجائے گا۔
’اگر روپے کی قدر اسی حساب سے گرتی رہی اور کوئی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو بجلی کے عام صارف کو بجلی کا ایک یونٹ 150 سے 200 روپے میں پڑے گا۔‘
درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ اس درخواست کے حتمی فیصلے تک سرکاری بجلی گھروں کو کیپیسٹی پیمنٹس کی ادائیگیوں کے حوالے سے حکم امتناع جاری کیا جائے۔