ناراض لوگوں سے بات کرنے پروزیراعلیٰ اور بہت سے لوگ بے روزگار ہوجائینگے، نوجوانوں کی تحریک میں شامل ہو سکتا ہوں، اختر مینگل


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)پاکستان کی قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے والے بلوچ سیاسی رہنما سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان میں نوجوان پرانے سردار سیاست دانوں کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں اس لیے وہ نوجوانوں کے ساتھ مل کر عوامی تحریک میں شامل ہو رہے ہیں اور اگر نوجوانوں کی زیرِ قیادت بھی کام کرنا پڑا تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہیں۔وائس آف امریکہ کے عاصم علی رانا کو انٹرویو میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ اگر انہیں ایک فی صد بھی یقین ہوتا کہ اسمبلی میں ان کی بات کو سمجھا جائے گا تو وہ اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ نہ دیتے۔بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ کے مطابق وہ اسمبلی میں تقریر کے لیے کھڑے ہوتے تو بلیک آؤٹ کر دیا جاتا، کیوں کہ سرکاری ٹی وی پر اسمبلی کی کارروائی نشر ہوتی ہے۔ ان کے بقول، “اب ہم گونگوں اور بہروں کو کیا اپنی بات سنائیں۔ اس دور میں تو ہماری بات بھی نہیں سنی جا رہی۔”اختر مینگل نے منگل کو قومی اسمبلی کی کارروائی میں شرکت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنے استعفے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اب تک اسپیکر قومی اسمبلی نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا ہے۔پارلیمان پر اعتماد نہ ہونے اور اسمبلی میں رہ کر اپنے صوبے کا مقدمہ لڑنے کے سوال پر اختر مینگل نے کہا کہ آج جن لوگوں کو ناراض بلوچ کہا جارہا ہے کیا وہ کبھی اس ایوان کا حصہ نہیں رہے؟ نواب اکبر بگٹی کیا اس ایوان کے رکن نہیں تھے اور کیا انہوں نے اسی آئین کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا؟انہوں نے الزام عائد کیا کہ بلوچستان میں آج جو ناراض ہیں انہیں ناراض کرنے کا کریڈٹ ریاستی اداروں کو جاتا ہے اور آج جن کے ہاتھ میں بندوق ہے تو وہ بھی ریاستی اداروں کی وجہ سے ہے۔بلوچستان میں حالیہ حملوں سے متعلق سوال پر سردار اختر مینگل نے کہا کہ وہ ان تمام حملوں کی مذمت کرتے ہیں جن میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قتل ہوا ہے، چاہے وہ ریاست کی طرف سے ہوں یا کسی گروپ کی جانب سے۔اختر مینگل کا کہنا تھا کہ مسئلہ بلوچستان آج کا نہیں بلکہ جس دن سے بلوچستان پاکستان کا حصہ بنا ہے یہ مسئلہ اس وقت سے ہے۔ انہوں نے کہا “میں تاریخ کے ان اوراق میں نہیں جانا چاہتا جہاں صرف خون آلود صفحات ہوں گے۔ لیکن گزشتہ 20، 25 سال میں بلوچستان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں اس بارے میں حکومتی ایوانوں میں حکمرانوں کو آگاہ کیا۔”اُنہوں نے کہا کہ ہم نے مسائل حل کرنے کے لیے راستے بتائے لیکن وقتی طور پر ہماری ہاں میں ہاں ملائی جاتی تھی اور جب ووٹوں کی ضرورت ہوتی تو کہتے کہ بلوچستان کے ساتھ بہت ظلم اور زیادتی ہوئی ہے۔ لیکن جب ضرورت پوری ہو جاتی تو وہ آنکھیں پھیر لیتے تھے۔اس ضمن میں اختر مینگل نے کسی سیاسی رہنما یا جماعت کا نام نہیں لیا۔ان کے بقول، رواں برس ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلی کے بارے میں سب کو علم ہے۔ گھروں میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگا کر بتایا گیا کہ وہ جیت گئے ہیں۔ اس طرح کی اسمبلی میں ایک گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔اختر مینگل نے کہا “میری تمام مایوسی موجودہ حالات کی وجہ سے ہے۔ نگراں دورِ حکومت میں جس طرح بلوچ خواتین کے ساتھ سلوک کیا گیا اس پر دکھ ہوا۔”اُن کے بقول ہماری روایت ہے کہ کوئی خاتون گھر آئے تو اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ وہ بچیاں صدارتی امیدوار نہیں تھیں اور نہ ہی نوکریاں مانگ رہی تھی بلکہ اپنے پیاروں کا پوچھ رہی تھیں۔ ان سے اگر پیار اور محبت کے ساتھ بات کی جاتی اور انہیں کہا جاتا کہ ہم لاپتا افراد کو ڈھونڈ رہے ہیں تو وہ آپ کی بات سن کر واپس چلی جاتیں۔ لیکن ان پر لاٹھی چارج کرنا، سخت سردی کے موسم میں ان پر واٹر کینن سے پانی پھینکنا، لاٹھیوں سے تھانے لے جا کر ان کا ستقبال کرنا، یہ سب کیا ہے؟اختر مینگل نے کہا کہ آج ماہ رنگ بلوچ کو احتجاج کا حق حاصل نہیں ہے تو پھر ان کے لیے کیا راستہ ہے؟ جب نوجوانوں پر تمام راستے بند کر دیے جاتے ہیں تو وہ اپنا راستہ خود چنتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ اسمبلی سے راہِ فرار اختیار نہیں کر رہے بلکہ اگر انہیں ایک فی صد بھی یقین ہوتا کہ پارلیمنٹ میں ان کی بات سمجھنا تو دور، صرف سن بھی لی جاتی تو استعفیٰ نہ دیتے۔اختر مینگل کے مطابق منگل کو جب وہ آخری تقریر کرنے کیلئے اسمبلی گئے تو استعفیٰ دینے کے لیے 85 فی صد ذہن بنا چکے تھے اور اپنی تقریر کے ذریعے ایوان میں بیٹھے لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا چاہتے تھے۔ لیکن کورم کی نشاندہی کر کے انہیں تقریر بھی کرنے نہیں دی گئی جس کے بعد محسوس ہوا کہ اسمبلی رکنیت سے استعفے کا ان کا فیصلہ بالکل درست ہے۔بلوچستان میں نوجوانوں کی طرف سے سیاسی محاز سنبھالنے کے حوالے سے اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوان طالب علم کچے اسکولوں میں پڑھتے تھے لیکن اب وہ اسلام آباد، ملتان، کراچی اور لاہور میں پڑھتے ہیں۔ اگر یہ سہولتیں انہیں بلوچستان میں ملتیں تو بہتر ہوتا۔بلوچ طلبہ کے لیے مقامی سیاست دانوں کے کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان میں حقیقی سیاسی قیادت ہوتی تو یہ مسائل نہ ہوتے کیوں کہ وہاں فارم 47 کے سیاست دان بیٹھے ہوئے ہیں۔اختر مینگل نے کہا کہ نوجوان پہلے سرداروں کی بات سنتے تھے کہ صبر سے کام لیں، حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن اب ایک عرصہ بیت گیا ہے۔ نوجوان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ تین نسلیں گزر گئیں لیکن ان کے حالات ٹھیک نہیں ہوئے۔بی این پی سربراہ کے مطابق وہ اب نوجوانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں اور ان کی زیرقیادت بھی سیاسی تحریک چلانے کو تیار ہیں۔ ان کے بقول اگر نوجوانوں نے ہمیں اپنے ساتھ نہ رکھا تو بھی دونوں ہاتھوں سے ان کی کامیابی کے لیے دعاگو رہوں گا۔بلوچستان میں سیاسی انجینئرنگ کے بینفشری کون ہیں؟ اس سوال پر اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے اور سیاسی انجینئرنگ سے فوائد حاصل کرنے والے بہت ہیں۔ وہ لوگ جو آج بھی فائدے اٹھا رہے ہیں وہ ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک ہر حکومت میں شامل ہیں۔ لیکن جو بلوچستان کی بات کرتے ہیں انہیں آگے آنے نہیں دیا جاتا۔اختر مینگل نے سیکیورٹی فورسز کو بھی بلوچستان سے فوائد حاصل کرنے والا کہا اور الزام عائد کیا کہ صوبے میں حالات کی خرابی کی وجہ سے اداروں کو اربوں روپے ملتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے مسئلہ کشمیر ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو لاکھوں کی فوج رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو پاکستان اور بھارت کے عوام اتنی بڑی فوج رکھنے کے خلاف ہوں گے اور سالانہ اربوں بچیں گے۔بلوچستان میں 26 اگست کے حملوں سے متعلق اختر مینگل نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز عوام کی حفاظت کی ذمہ دار ہیں، ان سے کوئی سوال کیوں نہیں کیا گیا۔ دنیا بھر میں ٹرین چند منٹ تاخیر کا شکار ہو تو وہاں کے وزیرِ استعفیٰ دے دیتے ہیں لیکن پاکستان کے وزیرِ داخلہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ ایک ایس ایچ او لیول کا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کہتے ہیں کہ وہ ناراض لوگوں سے بات کریں گے۔ اگر وہ ناراض لوگوں سے بات کریں گے تو وہ اور بہت سے لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔ناراض بلوچوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ناراض افراد کی ناراضگی نفرت اور اس کے بعد دہشت گردی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ نفرت پاکستان بننے کے بعد شروع ہوئی۔ اس وقت اس کے بیج بوئے گئے اور ہر دور میں ان کی آبیاری کی گئی اور اب اس نفرت کی جڑیں پورے بلوچستان میں پھیل چکی ہیں۔اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں 95 فی صد سردار ہمیشہ حکومتوں میں شامل رہے۔ جب جب آپریشن کی بات کی گئی تو وہ ان کے ساتھ بھنگڑے ڈالتے رہے۔ اب ان سرداروں کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ ایک خودکش لڑکی جو اپنے گھر والوں کو نہیں بتاتی، کسی کی بات نہیں سنتی وہ کسی بزرگ سردار کی بات کیا سنے گی۔مسنگ پرسن کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ انہوں نے 2002 میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا جس کے بعد 2006 میں جب لانگ مارچ شروع کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ 2012 میں سپریم کورٹ آئے وہاں بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ 2013 میں نوازشریف سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ آرمی چیف یا کورکمانڈر سے بات کریں۔ان کے بقول 2018 میں عمران خان سے معاہدہ ہوا کہ مسنگ پرسن کا مسئلہ حل ہوگا لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت کے ساتھ بات کی لیکن یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ اب ہمارے لیے کوئی دروازہ بچا ہی نہیں۔بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے سینئر سیاست دانوں کو مل کر کوشش کرنے سے متعلق اختر مینگل نے کہا کہ اگر سب حقیقی سیاست دان مل کر کوشش کریں تو بہتری آسکتی ہے۔ اگر سب متفق ہو جائیں تو ہم اسٹیبلشمنٹ تو کیا کسی بھی طاقت ور سے لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے نیت کا درست ہونا بہت ضروری ہے۔