انہوں نے کہا کہ عوامی اجتماع روکنے کے لیے پہلے ہی کئی قوانین موجود ہیں،ایک جلسے کی وجہ سے پورے اسلام آباد کو بند کردیا گیا اور کالے قوانین بنائے گئے . ہماری بد نصیبی ہے کہ آج نہ جمہوریت، نہ عوام اور نہ ملک کی مشکلات کی بات کی جا رہی ہے بلکہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی نفی میں قوانین بنائے جا رہے ہیں . سنگجانی میں پی ٹی آئی جلسہ کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ بد نصیبی ہے کہ ایک جلسہ کو روکنے کے لیے پورے اسلام آباد کو بند کر دیا گیا، اس کے بعد ممبران اسمبلی کی جو اور جس طرح گرفتاریاں کی گئیں وہ درست نہیں ہے، اسپیکر کو اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے، دیکھنا چاہتا ہوں کہ اسپیکر گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈ ر پرکیسے عمل کراتے ہیں . شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کی حالت ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے اور ایک جلسے کو روکنے کے لیے آپ نے پورا قانون بنا لیا . ایک ایسا قانون بنا دیا گیا جس میں پارلیمنٹیریئنز خود کو ایک ڈی سی اور ایس ایچ او کے تابع کر رہے ہیں، ایک جلسے کے لیے اپوزیشن سے خائف ہو کر کالے قوانین بنائے جا رہے ہیں ، آج صورت حال یہ ہے تو کل کو ایک ایس ایچ او پکڑ کر آپ کو تفتیش کے لیے لے جائے گا، ایک سیاستدان ایسا خود کر رہے ہیں تو کل کو یہ ملک کیسے چلے گا . انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک قانون کی تشریح کی ہے، قانون نہیں بنایا، چیف جسٹس اپنی مدت ملازمت میں توسیع سےانکار کر کے تاریخ میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں . ان کا کہنا تھا کہ جلسہ کے دوران جو تقاریر ہوئی اس میں عوام کی بات کسی نے بھی نہیں کی، پورے جلسے کے دوران صرف ایک دوسرے پر الزامات اور گالم گلوچ کی گئی، جو الفاظ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے استعمال کیے وہ کسی کو زیب نہیں دیتے، ان کی مذمت نہ ہو تو جمہوریت کا حق ادا نہیں ہوتا . سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جب آپ ایک ذمہ دار آئینی عہدے پر ہوں تو جو بھی لفظ آپ بولتے ہیں وہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، لوگ دیکھتے ہیں اور یہ آپ کی جماعت کی عکاسی کرتے ہیں . . .
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سابق وزیراعظم اورپاکستان عوام پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ایک جلسے کو روکنے کے لیے ملک میں ’کالے قوانین‘ بنائے جا رہے ہیں، پوری اسمبلی کو ایک ایس ایچ او کے تابع کر دیا گیا ہے .
بدھ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسلام آباد جلسے جلوسوں کے لیے نیا ایکٹ پاس کیا گیا ہے جس کے اختیارات انتظامیہ اور مجسٹریٹ اور پھر وزیر داخلہ کو دیے گئے ہیں، ملک میں اس قانون کی ضرورت نہیں تھی، ملک میں پہلے ہی ایسے قوانین موجود تھے .
متعلقہ خبریں