دفاعی تجزیہ کاروں کا تعین آئی ایس پی آر اپنا خصوصی اختیار کیوں سمجھتا ہے؟ جواب طلب


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد ہائیکورٹ نے جواب طلب کرلیا کہ دفاعی تجزیہ کاروں کا تعین آئی ایس پی آر اپنا خصوصی اختیار کیوں سمجھتا ہے؟
ہائیکورٹ میں ٹی وی چینلز پر دفاعی معاملات پر صرف ریٹائرڈ فوجی افسران کے تجزیے کے پیمرا نوٹیفکیشن کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس بابر ستار نے کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اصل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے پوچھا کہ پیمرا نے کِس کی سفارش پر یہ نوٹیفکیشن جاری کیا؟
ہائیکورٹ نے وزارتِ دفاع سے بھی جواب طلب کر لیا کہ آئی ایس پی آر کی لیگل اسٹینڈنگ کیا ہے؟ اور دفاعی تجزیہ کاروں کا تعین آئی ایس پی آر اپنا خصوصی اختیار کیوں سمجھتا ہے؟
عدالت نے استفسار کیا کہ پیمرا کے پاس ٹی وی چینلز کا کانٹینٹ ریگولیٹ کرنے کا کونسا اختیار ہے؟ پوچھا گیا کہ ٹی وی چینلز پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں کی پہلے کلیئرنس کرنے کا کیا اختیار ہے، جس پر پیمرا کے وکیل نے پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 20 کا حوالہ دیا، مگر یہ شق ملکی سیکیورٹی، سالمیت اور خودمختاری کے تحفظ کی ٹی وی چینلز کی ذمہ داری سے متعلق ہے، تجزیہ کاروں کی پہلے کلیئرنس کا ملکی سیکیورٹی اور خودمختاری سے کیا تعلق ہے۔
حکمنامے کے مطابق پیمرا کے وکیل نے ان سوالات کے جواب کےلیے عدالتی معاونت کیلئے مزید وقت مانگ لیا۔
عدالت نے سوال کیا کہ پیمرا کو ایسا سرکلر جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، کیا آرمڈ فورسز یا آئی ایس پی آر نے ایسی کوئی درخواست کی ہے،۔ پیمرا کے وکیل نے ان سوالوں کے جوابات دینے کیلئے بھی وقت مانگ لیا۔
واضح رہے کہ پیمرا نے 4 اپریل 2019 کو ریٹائرڈ فوجی افسران کے دفاعی معاملات پر تجزیے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ درخواست گزار کے مطابق پیمرا نے تجزیہ کاروں کیلئے آئی ایس پی آر کی کلیئرنس کی بھی شرط رکھی ہے۔