2024 میں 6.8 ارب ریال کا معاہدہ عمل میں آیا، جس میں مملکت ہولڈنگ اور سمو ہولڈنگ جیسی بڑی کمپنیوں نے حصہ لیا، اس کے بعد 7.2 ارب ریال کا ایک اور اہم معاہدہ سعودی بن لادن گروپ کے ساتھ طے پایا، جس کے تحت برج جدہ کی تعمیر 2028 تک مکمل کی جائے گی . یہ برج 157 منزلوں پر مشتمل ہوگا، جس میں سے 63 منزلوں کی تکمیل ہو چکی ہے، اس میں 59 برقی لفٹیں، 12 برقی سیڑھیاں اور 80 ٹن فولاد کا استعمال کیا جائے گا . توانائی کی بچت کے لیے اس میں خصوصی شیشے کی دیواریں لگائی جا رہی ہیں جو درجہ حرارت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گی . برج جدہ میں 5 اسٹار ہوٹل، سیاحتی ریزورٹ، کاروباری علاقے، خریداری مراکز، رہائشی یونٹس، دفاتر اور تعلیمی و تفریحی مراکز شامل ہوں گے، جو اسے عالمی معیار کا ایک مکمل شہری منصوبہ بنانے کا باعث ہوں گے . 1000 میٹر بلند برج جدہ کی تکمیل کے بعد، سعودی عرب دنیا کا واحد ملک بن جائے گا جس کے پاس دنیا کی 5 بلند ترین عمارتوں میں سے دو عمارتیں ہوں گی، مملکت کے پاس پہلے ہی 601 میٹر بلند مکہ کلاک ٹاور موجود ہے . واضح رہے کہ دنیا کی دیگر 3 بلند ترین عمارتوں میں دبئی میں واقع برج خلیفہ جو 828 میٹر بلند ہے، 679 میٹر بلند ملائیشیا کا میرڈیکا 118 اور چین کا 632 میٹر بلند برج شنگھائی شامل ہیں . ماہرین کے مطابق برج جدہ کی تکمیل نہ صرف سعودی عرب کے تعمیراتی میدان میں نمایاں کامیابی ہوگی، بلکہ یہ عالمی سطح پر سعودی عرب کی ترقی یافتہ انجینئرنگ اور تعمیراتی مہارت کو بھی نمایاں کرے گی . اس منصوبے کے پیچھے شہزادہ الولید بن طلال کا وژن اور دنیا کے مشہور معمار ایڈریان اسمتھ کا ہنر ہے . ایڈریان اسمتھ وہی معمار ہیں جنہوں نے دبئی کا برج خلیفہ ڈیزائن کیا تھا، جو اب تک دنیا کی بلند ترین عمارت ہے . برج جدہ ان کی مہارت کا ایک تسلسل ہے، جس میں جدید تعمیراتی تکنیک استعمال کی گئی ہیں جو توانائی کی بچت، قدرتی ہوا کی روانی اور ماحول دوست تعمیراتی مواد کے استعمال کو یقینی بناتی ہیں . . .
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سعودی عرب کی سرزمین پر جلد ہی فن تعمیر کا ایک نیا عالمی شاہکار ابھرنے والا ہے، جسے دنیا کی بلند ترین عمارت یعنی برج جدہ کے نام سے موسوم کیا جائے گا، یہ منصوبہ سعودی عرب اور دنیا بھر کے لیے ایک کامیابی کی علامت بنے گا، اس شاہکار منصوبے کے روحِ رواں سعودی عرب کے معروف سرمایہ کار شہزادہ الولید بن طلال ہیں .
اس منصوبہ کی تعمیر کے پہلے مرحلے کا آغاز 2013 میں ہوا، عالمی سطح پر دلچسپی کا مرکز بننے والا یہ منصوبہ 2018 میں تعطل کا شکار ہوا، تاہم 2023 میں اس کی تعمیر کے بارے میں پھر غوروخوض کیا گیا، شہزادہ الولید بن طلال کی قیادت میں، یہ منصوبہ نئے جوش اور ولولے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، اور یہ سعودی عرب کو عالمی تعمیراتی نقشے پر ایک نمایاں مقام دے گا .
متعلقہ خبریں