سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 25 کرنے کی منظوری دے دی


قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف میں سینیٹر کامران مرتضیٰ اور حامد خان کی ججز کی تعداد بڑھانے کی مخالفت
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 25 کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 25 ججز میں ایک چیف جسٹس اور 24 ججز شامل ہوں گے جبکہ سینیٹر حامد خان اور سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ججز کی تعداد بڑھانے کی مخالفت کی ، سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ ججز کو کم از کم 21 لازمی کرنا چاہیے ۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر اخبار بتا سکتا ہے مقدمات کی تعداد 60 ہزار ہیں توآپ کیوں نہیں بتا سکتے، چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری قانون سے کہا کہ آپ کومعلومات کےلیےکتنا وقت چاہیے؟ سیکریٹری قانون نے کہا کہ ہمیں کم سے کم بھی تین ہفتے کا وقت دے دیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ نئے چیف جسٹس سب کی پسند سےآئے ہیں انہیں دو، تین ماہ دینےچاہیے،سینیٹر حامد خان نے کہا کہ ہم ایک انتہائی غریب ملک ہیں,بہت خرچ کرنا پڑتا ہے، سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ کامن سینس ہے کہ جب کام بڑھے بندے بڑھالیں۔ سینیٹر حامد خان نے کہا کہ آپ یہ بتائیں آپ کی حکومت کیا کرنا چاہ رہی ہے ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بھی تذکرہ ہوا۔
سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ پاکستان کی آبادی میں مسلسل اضافے سے کرائم ریٹ بڑھا ہے،ملک یں ججز کی تعداد 1995 والی چل رہی ہے ،اب تو کیس فکس کرانے کیلئےبھی سفارشیں کرائی جاتی ہیں، 26 ویں ترمیم کے تحت اب ججز کو آئینی بینچز میں بھی وقت دینا پڑے گا،سپریم کورٹ کے پاس کام ذیادہ ہے ،ججز کی تعداد بڑھانی چاہیے، سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب میں ججز کی سیٹیں خالی ہیں۔
سینیٹر حامد خان نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں اگر صرف سیٹیں ہی مسئلہ ہوتیں تو ہم کہتےتعداد بڑھا دیں۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں چند ماہ پہلےسیٹیں خالی ہونے کی بھی وجہ تھی،پچھلے ہفتے کی کاز لسٹ دیکھیں تو 12 سے زیادہ کیسز نہیں لگتے تھے،اب 30 ،30 کیسز لگنے کامطلب پہلے بھی کیپیسٹی پوری تھی جان بوجھ کر مقدمات لٹکائے گئے ، سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر سپریم کورٹ خود ہے، سپریم کورٹ سے کسی نے پوچھا کہ ججز کی ضرورت ہے کہ نہیں؟،سپریم کورٹ کو خط لکھ کر پوچھ لیں وہاں ججز کی ضرورت تھی یا نہیں۔
سینیٹر حامد خان پھر بولے کہ ججز کی تعداد بڑھانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اگر ججز کی تعداد بڑھانی یے تو ہائیکورٹ میں بڑھائیں وہاں ضرورت ہے،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ انگلینڈ میں 12 ججز ہیں، بنگلہ دیش میں 54 ججز ہیں، سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ آپ لوگ انڈیا، انڈونیشیا، سمیت ممالک کے ججز گن رہے ہیں ،آپ ملک کی سب سے بڑی ائیر لائن کیلئے10 ارب کی بولی نہیں لگوا سکے۔
بعدازاں قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 25 کرنے کی منظوری دے دی ، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 25 ججز میں ایک چیف جسٹس اور 24 ججز شامل ہوں گے، تاہم سینیٹرحامد خان اور سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ججز کی تعداد بڑھانے کی مخالفت کی ۔