2014 سے لاپتہ امیر بخش بلوچ کو بازیاب کیا جائے،صدف امیر
کوئٹہ (قدرت روزنامہ)صدف امیر بلوچ نے کہا ہے میرے والد امیر بخش بلوچ کو 4 اگست 2014 کو کلانچ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا، اور وہ آج تک لاپتہ ہیں۔ ان کی گمشدگی نے ہمارے خاندان کی زندگی کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہم نہ صرف ان کی جدائی کے غم میں مبتلا ہیں بلکہ اس ظلم نے ہمیں ہماری تمام بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم اسکول نہیں جا سکتے، عام زندگی نہیں گزار سکتے، اور ہر دن درد و اذیت میں گزرتا ہے۔ میرے والد کی گمشدگی ایک ایسا زخم ہے جو وقت کے ساتھ اور گہرا ہو رہا ہے۔ ان کے لاپتہ ہونے کے بعد ہمارا خاندان ایک لمحے کے لیے بھی سکون میں نہیں رہ سکا۔ نہ صرف ہم ان کی تلاش میں ہیں بلکہ ہمیں ہر روز اس بات کا خوف بھی ہے کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں، کس حالت میں ہیں، اور کب تک اس اذیت میں مبتلا رہیں گے۔10 دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن ہے اور میں تمام انسانی حقوق کی تنظیموں، سماجی کارکنوں، اور عام عوام سے اپیل کرتی ہوں کہ اس دن کو میرے والد امیر بخش بلوچ سمیت تمام جبری لاپتہ بلوچ افراد کے نام کریں۔ اس دن ان افراد کی طویل گمشدگی کے خلاف آواز اٹھائیں، جو آج بھی اپنے خاندانوں سے دور ہیں، جن کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں، کس حال میں ہیں، اور ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ہمیں اس دن کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرنا ہوگا تاکہ ہم ان تمام لاپتہ افراد کے حقوق کی بازیابی کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھا سکیں۔ میرے والد کی گمشدگی کا معاملہ صرف میرے خاندان کا نہیں، بلکہ اس پورے معاشرتی ظلم کا حصہ ہے جس میں کئی بلوچ خاندان اپنے پیاروں کی واپسی کی دعا کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ وائس فار جسٹس انسانی حقوق کے عالمی دن پر ایک مہم ایکس پر شروع کرے گا، اور میں آپ سب سے درخواست کرتی ہوں کہ اس مہم میں شامل ہو کر میرے والد امیر بخش بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں اور بلوچ قوم کو درپیش انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنے موقف کا اظہار کریں۔
آئیے، ہم سب ایک قدم اٹھائیں تاکہ ہم ان گمشدہ افراد کو انصاف دلوا سکیں اور ان کے خاندانوں کی اذیت کا خاتمہ ممکن بنا سکیں۔