مصنوعی ذہانت: زندگی کے سفر میں ہماری ہمسفر، مگر کیا اس دوستی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)مصنوعی ذہانت موبائل فونز کے ذریعے ہماری زندگی میں شامل ہوچکی ہے اور اس سفر میں ایک کوپائلٹ کا کردار ادا کررہی ہے۔ ایپل، گوگل اور سام سنگ سمیت بڑی ٹیک کمپنیوں نے اب ایسی سروسز لانچ کردی ہیں جن کی مدد سے ہم اب بہتر طریقے سے فوٹوز ایڈیٹ کرسکتے ہیں اور مختلف زبانوں کے ترجمے بھی کرسکتے ہیں۔
ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا کردار اہمیت اختیار کرچکا ہے، لیکن اپنی ذاتی معلومات کو اے آئی ٹیکنالوجی کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے ہمیں یقیناً ایک مکمل اعتماد کی ضرورت ہے۔ گو کہ تمام بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں اے آئی ٹیکنالوجی کو محفوظ تر بنانے کے دعوے کررہی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اے آئی اور بڑی ٹیک کمپنیوں پر اس حد تک اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ ان کے ساتھ ذاتی معلومات شیئر کی جاسکیں۔
مثال کے طور پر، کیا آپ اے آئی پر اس حد تک اعتماد کرسکتے ہیں کہ اسے بتاسکیں کہ آپ کس فرد سے بات کرنا یا ملنا نہیں چاہتے یا اسے اپنی زندگی کے دیگر راز بتا سکیں۔ ذرا سوچیں کہ اگر آپ ایسا کرتے ہیں اور کسی بھی موقع پر کوئی تکنیکی خرابی پیدا ہوگئی اور آپ کی ذاتی نوعیت کی معلومات انٹرنیٹ پر شیئر ہوگئی تو کیا ہوگا۔
اس حوالے سے ٹیکنالوجی ریسرچ کمپنی سی سی ایس انسائٹ کے چیف اینالسٹ بین ووڈ کا کہنا ہے کہ 2025 میں اے آئی کی پرسنلائزڈ سروسز بہتر انداز میں اپڈیٹ کرکے متعارف کرائی جائیں گی جن میں مصنوعی ذہانت ای میلز، میسجز، ڈاکیومنٹس اور سوشل میڈیا سرگرمیوں کی بنیاد پر کسی بھی شخص کے بات چیت کے انداز، اس کی ضروریات اور ترجیحات کو سمجھنے کے قابل ہوگی اور وہ اسی انداز سے کام کرے گی۔
تاہم، ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی شخص کے لیے مصنوعی ذہانت کے ساتھ ذاتی معلومات شیئر کرنا ایک بڑا فیصلہ ہوگا، جس میں سب سے زیادہ اہم یہی سوال ہوگا کہ کیا یہ آپ کے لیے محفوظ ہے اور کیا آپ اس ٹیکنالوجی پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔