امریکی صدر کا یوکرینی صدر سے ذلت آمیز سلوک، پرانے اتحاد ٹوٹنے اور نئے اتحادوں کی تشکیل کا وقت آگیا؟

بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو۔۔۔


امریکا (قدرت روزنامہ)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یوکرینی صدر سے متکبرانہ اور تحقیر آمیز گفتگو نے اگلے وقتوں کے بادشاہوں کی یاد دلا دی، ان میں سے اکثر دشمن کی تذلیل کرنا قابل فخر سمجھتے تھے، لیکن امریکا کو عظیم بنانے کا دعویٰ کرنے والے ٹرمپ نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو گھر بلا کر جس طرح بے عزت کیا ہے، اس کی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ملے لیکن اب ضرور ملا کرے گی۔
نائب امریکی صدر جے ڈی وینس نے بھی گاہے بگاہے اپنی جولانیاں دکھائیں۔ سیاہ لباس میں ملبوس زیلنسکی کو بار بار گفتگو کرنے سے روکا گیا، امریکی صدر نے باقاعدہ انگلی اٹھا کر انہیں روکا اور واضح کیا کہ تمہاری حیثیت کیا ہے کہ تم امریکا کو ڈکٹیٹ کرو کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں، تم تیسری جنگ عظیم کا جوا کھیل رہے ہو، لاکھوں افراد کی زندگی داؤ پر لگا رہے ہو، اگر امریکا کی مدد نہ ہوتی تو تم دو ہفتے بھی روس کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، یا تو معاہدہ کرو یا امریکا کو اس سارے معاملے سے باہر سمجھو۔
جے ڈی وینس نے کئی بار زیلنسکی کو گفتگو سے روکا اور کہا کہ تمہیں تو امریکی صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو تنازع کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ تم نے اکتوبر میں اپوزیشن کی الیکشن مہم میں حصہ لیا، اور آج تم اس انتظامیہ پر حملہ آور ہو جو تمہارے ملک ملک کو بچانے کی کوشش کر رہی ہےِ۔ ایک لمحے پر تو ملاقات کے دوران ٹرمپ نے زیلنسکی کو کہا تم بہت بول لیے، تمہارا ملک بہت بڑی مشکل میں ہے، تمہیں ہماری وجہ سے اسے بچانے کا موقع مل رہا ہے۔
زیلنسکی بار بار بولنے کی کوشش کرتے رہے، وضاحتیں دیں لیکن ایک بات واضح کرگئے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن سے کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ یہ ملاقات عالمی میڈیا پر براہ راست دکھائی گئی، یہ لکھتے ہوئے بہت افسوس ہورہا ہے کہ ملاقات کیا تھی یوکرین کے 3 کروڑ 78 لاکھ شہریوں کی ذلت کا براہ راست نظارہ تھا۔ ٹرمپ نے ملاقات کو زبردست ٹیلی وژن شو قرار دیا۔ بعد میں دونوں رہنماؤں کی مشترکہ نیوز کانفرنس منسوخ کردی گئی اور یوکرینی صدر سے کہا گیا کہ وہ وائٹ ہاؤس سے نکل جائیں۔ معدنیات کے معاہدے پر بھی دستخط نہیں ہوئے، امریکی صدر ٹرمپ نے ایکس پر پیغام بھی دے ڈالا کہ زیلنسکی جب امن کے لیے تیار ہوں تو واپس آسکتے ہیں۔
روس نے یوکرین پر 24 فروری 2022ء کو حملہ کیا، پرانے قبضے کو ملا کر روس نے یوکرین کے 27 فیصد رقبے پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور 35 لاکھ سے زیادہ یوکرینی عوام قبضہ زدہ علاقے میں رہائش پذیر ہیں، یوکرین میں جنگ لڑنے کے لیے مردوں کی قلت پیدا ہوچکی ہے اور اگر اسی صورتحال میں جنگ بندی ہو جاتی ہے اور روس اور یوکرین کی نئی سرحدوں کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو دونوں کے درمیان تعیناتی کے لیے غیرجانبدار افواج کی سوا لاکھ سے زیادہ فوج درکار ہوگی، اس فوج کو اس علاقے میں رکھنا، اس کے اخراجات اٹھانا اور موسمی حالات کو دیکھیں تو یہ اقدام ناقابل فہم لگتا ہے۔
بائیڈن دور میں امریکی کانگریس نے یوکرین کے لیے 170 ارب ڈالر کی امداد منظور کی، اس میں سے 70 ارب ڈالر کی فوجی امداد تھی، جبکہ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یوکرین کو 350 ارب ڈالر دیے گئے ہیں، اور امریکا اس رقم کو ہر صورت واپس لے گا، عالمی مبصرین نے ٹرمپ کے دعوے کو غلط قرار دیا، اور یہ کہ ٹرمپ کے پاس 350 ارب ڈالر دینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور ان کا دعویٰ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ تاہم رقم کی واپسی کے لیے امریکا چاہتا ہے کہ یوکرین اپنی معدنیات تک رسائی دے، ایک مشترکہ فنڈ بھی قائم کیا جائے گا، جس میں امریکا اور یوکرین دونوں حصہ ڈالیں گے، اور یہ رقم یوکرین کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال ہوگی۔ امریکا چاہتا ہے کہ اسے کم از کم 500 ارب ڈالر واپس ملنے چاہئیں۔
اس سے کچھ دن پہلے بھی ٹرمپ کا نادر شاہی حکم سامنے آچکا ہے کہ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرایا جائے گا، وہاں شداد کی طرح جنت بنائی جائے گی جہاں دنیا بھر سے لوگ آسکیں گے، تفریح کے مواقع اور تماش گاہیں ہوں گی، ٹرمپ نے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس، اے آئی) سے تیار کردہ نئے غزہ کی ویڈیو بھی پیش کردی۔
غزہ کی آبادی 21 لاکھ کے قریب ہے جن کے بارے میں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ مصر، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملک اپنے ہاں تھوڑی تھوڑی زمین فراہم کریں تو فلسطینیوں کو ان خطوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ خلیجی ملکوں نے ٹرمپ کا منصوبہ سختی سے مسترد کردیا ہے اور سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ اس صورتحال سے کیسے بچا جائے۔ امریکا نے غزہ کو کھنڈر بنانے کے لیے اربوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا ان میں 2000 پاؤنڈ وزنی بم بھی شامل تھے، جنھوں نے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
عالمی دانشوروں اور ماہرین سماجیات کو جس کا ڈر تھا وہی ہورہا ہے، ٹرمپ کا رویہ دنیا کے دیگر ملکوں اور امریکا کے درمیان تنازعات میں اضافہ کر رہا ہے، عالمی ترجیحات تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں، یوکرین کے معاملے پر امریکا اور یورپ کے درمیان حائل خلیج مزید گہری ہوگئی ہے، امریکا اور روس میں تعلقات بڑھتے نظر آرہے ہیں، ٹرمپ کے غزہ منصوبے نے ترکیہ اور مصر سمیت خلیجی ملکوں کی نیندیں اڑا دی ہیں، چین سے امریکی تلخیاں بھی بڑھ چکی ہیں۔ پرانے اتحاد ٹوٹتے اور نئے اتحاد بنتے نظر آرہے ہیں۔ چین مسلسل مشرق وسطیٰ میں اثر رسوخ بڑھانے میں منہمک ہے، یورپ سے بھی رابطوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ جبکہ امریکا سے ناراض ملکوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ روس، یوکرین تنازع اور اسرائیل، حماس جنگ کا اصل فائدہ امریکا کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے، یوکرین کی معدنیات جلد یا بدیر امریکا کے ہاتھ لگ جائیں گی، اور آج نہیں تو کل غزہ پر بھی امریکا قابض ہوجائے گا کیونکہ یورپ میں تو پھر بھی زبانی کلامی دم خم ہے، غزہ کے نام نہاد حمایتی تو احتجاجاً ہاتھ کھڑا کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔ ظالم بادشاہ اور آمر وہی ہے، مظلوموں کی تعداد بڑھ گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *