5 سال پرانی امپورٹڈ گاڑیوں پر پابندی ختم ہونے سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)گزشتہ روز آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کے تحٹ ملنے والی تیسری قسط کے حصول کے لیے طویل مذاکرات ہوئے جس میں آئی ایم ایف کی جانب سے 11 شرائط رکھی گئی ہیں اور ان میں سے ایک شرط گاڑیوں کی امپورٹ پر لگی پابندی اٹھانے سے متعلق بھی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ استعمال شدہ گاڑیوں کی تجارتی درآمد پر تمام پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے مطلوبہ قانون سازی پارلیمنٹ میں جمع کرائے کیونکہ فی الحال صرف 3 سال تک پرانی گاڑیوں کو درآمد کیا جا سکتا ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ ان پابندیوں کو ہٹانے کا مقصد تجارت کو آزاد کرنا اور گاڑیاں خریدنے کی سکت کو بڑھانا ہے۔ نئی شرائط عائد کرنے کے علاوہ آئی ایم ایف نے پہلے کی شرائط میں بھی ایڈجسٹمنٹ کی ہے، جس پر پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے دسمبر 2024 کے آخر تک 7 شرائط کے ساتھ کارکردگی کے معیار کو پورا کیا ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے قانون سازی کے ذریعے جولائی کے آخر تک 5 سال تک کی گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ سے پابندی ختم کرنے کو کہا گیا ہے۔
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ اگر 5 سال تک پرانی گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ سے پابندی ہٹا دی جاتی ہے تو اس سے 5 سال پرانی جاپانی گاڑیاں کافی سستی ہوجائیں گی، یعنی جب ملک میں کم قیمت والی گاڑیاں آئیں گی تو عوام کو فائدہ ہوگا اور جب امپورٹ میں اضافہ ہوگا تو حکومت کو ڈیوٹیز اور ٹیکسز بھی زیادہ ملیں گے۔
ایچ ایم اکبر شہزاد نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کو ٹیکسز، ریگولیٹری ڈیوٹی، سیل ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو کم کرنے کا بھی کہا گیا ہے اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر آٹو سیکٹر پر مزید مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ایسا ہونا آٹو انڈسٹر کو زندہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان میں گاڑیوں کی امپورٹ میں اضافہ ہوگا تو یقیناً لوکل انڈسٹری بھی اپنے معیار اور کارکردگی کو بہتر کرنے کی کوشش کرے گی یعنی مقابلے کی فضا پیدا ہوگی۔
کار ڈیلر فاروق پٹیل کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ 5 سال تک گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ سے پابندی ہٹائے جانے سے سب سے زیادہ فائدہ عوام کو ہوگا کیونکہ ان کے لیے سستی اور اچھی گاڑیوں کی فراہمی ممکن ہوسکے گی، اس کے ساتھ ساتھ آٹو انڈسٹری کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ گاڑیوں کی قیمت میں مسلسل اضافے سے خرید و فروخت میں بہت حد تک کمی آچکی تھی۔
لیکن ان فوائد کے ساتھ ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق فاروق پٹیل کا کہنا تھا کہ جب جاپانی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہوگی تو اس سے لوکل اور پاکستان میں اسمبل گاڑیوں کی خرید و فروخت پر منفی اثر پڑے گا کیونکہ باہر سے امپورٹ کی جانے والی گاڑیوں کے ریٹس کم ہوں گے اور ان پر ڈیوٹیز بھی کم ہوں گی جس سے لوگوں کی دلچسپی لوکل کے بجائے جاپانی گاڑیوں میں بڑھ جائے گی اور یوں پاکستان میں جاپانی گاڑیوں کی طلب اور رسد میں اضافے کی وجہ سے ملک سے ڈالرز ایک بار پھر تیزی سے پاکستان سے باہر جانا شروع ہوجائیں گے
فاروق پٹیل کا مزید کہنا تھا کہ عوام کو امپورٹڈ گاڑیاں کم قیمت میں تو مل جائیں گی مگر اس کے ساتھ پاکستان آٹو پارٹس انڈسٹری کے لیے یہ ایک اچھی خبر نہیں ہے اس لیے لوگوں سے یہی گزارش ہے کہ وہ پاکستان میڈ گاڑی کی خریداری پر توجہ دیں تاکہ پاکستان کا آٹو سیکٹر بھی ہمسایہ ممالک کی طرح ترقی کرے۔

WhatsApp
Get Alert