ان کی بڑی بیٹی کا انتقال ان کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا- بیٹیوں میں حصہ تقسیم کرنے کے بعد وہ تنہا رہ گئے تھے اور انہوں نے اولڈ ایج ہوم میں رہائش اختیار کر لی تھی جہاں پر ان کو ہر قسم کی سہولت میسر تھی- مگر اس کے باوجود وہ وہاں پر بہت تنہائی محسوس کرتے تھے اور اس وجہ سے انہوں نے ایک بڑا فیصلہ کیا-ایک نجی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اللہ نے انہیں زندگی بھر بیٹا نہیں دیا مگر وہ آخری عمر میں اپنے ایک بیٹے کی کمی 80 پوتوں سے ضرور پوری کر سکتے ہیں-اس وجہ سے انہوں نے اپنی تمام زمین جو کہ سترہ ایکڑ کے قریب تھی اور اس کی مالیت بیس کروڑ کے برابر تھی اس سے کو آغوش نام کے ایک یتیم خانے کی تعمیر کے لیے اور انتظامات کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا-اب اس وقت آغوش میں 80 یتیم لڑکے موجود ہیں جو شیخ محمد افضل کو دادا جی کے نام سے پکارتے ہیں- ان کی تعلیم و تریبت اور دیگر تمام اخراجات کی ذمہ داری افضل صاحب اٹھاتے ہیں جواب میں وہ بچے ایک گھر کی طرح ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں-شیخ محمد افضل صاحب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ وہ اپنے اس فیصلے سے بہت خوش ہیں اور ان کے اس فیصلے کی بدولت اللہ نے انہیں اسی پوتوں کا دادا بنا دیا ہے جو ان کا بہت خیال رکھتے ہیں اور ان سے بہت پیار کرتے ہیں- وہ بھی ان کے تعلیمی معاملات کے حوالے سے ان پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور ان سے پوچھ تاچھ بھی کرتے ہیں- . .
شیخوپورہ(قدرت روزنامہ)ہمارے معاشرے میں کسی بھی شخص کا نام زندہ رکھنے کے لیے اولاد نرینہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تاثر عام ہے کہ ایک بیٹا ہی آپ کی نسل کو چلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور جن کا کوئی بیٹا نہیں ہوتا ہے ان کو معاشرہ بدقسمت تصور کرتا ہے- اور ایسے افراد کے لیۓ یہ تاثر عام ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد ان کا نام لیوا کوئی نہ ہوگا-مگر پنجاب کے علاقے شیخوپورہ کے نوے سالہ رہائشی شیخ محمد افضل نے معاشرے کے اس غلط تاثر کی نفی کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ اسلام ایسے غلط نظریات کو تسلیم نہیں کرتا ہے-
اور ہمارے مذہب میں یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والوں کو ان بچوں کے سر پر موجود بالوں کے برابر نیکیاں ملنے کا وعدہ اللہ نے فرمایا ہے اور اس کا اجر ان کو اس دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی اللہ نے ان سے بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے-تفصیلات کے مطابق شیخ محمد افضل کا تعلق شیخو پورہ کے ایک زمیندار گھرانے سے تھا وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے اور ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کی ساری جائیداد کے بھی تنہا وارث تھے . شادی کے نتیجے میں اللہ نے انہیں دو بیٹیوں سے نوازہ تھا جن کی شادیاں انہوں نے کر دی تھیں اور بیوی کی وفات کے بعد انہوں نے بیٹیوں کو بھی جائیداد میں سے حصہ دے دیا تھا .
متعلقہ خبریں