عمران خان کی جیل سے تحریک، فیصلہ کن حکمتِ عملی یا سیاسی داؤ؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے جیل سے ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس بیان نے ملک کی موجودہ سیاسی فضا میں ایک نیا ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تحریک واقعی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے؟ یا پھر یہ بھی ایک وقتی دباؤ کی کوشش بن کر رہ جائے گی؟
یہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں ایک منفرد منظرنامہ ہے کہ ایک سیاسی رہنما جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر احتجاجی تحریک کی قیادت کرے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ تمام ہدایات جیل سے جاری کریں گے اور تحریک کو خود “اندر سے” لیڈ کریں گے۔
یہ بیانیہ بلاشبہ پی ٹی آئی کے حامیوں کے لیے جذباتی اپیل رکھتا ہے لیکن عملی سطح پر تنظیمی ڈھانچے، رسائی اور مرکزی قیادت کی عدم موجودگی تحریک کے تسلسل کے لیے چیلنج بن سکتے ہیں۔
سینیٹر علی ظفر کی جانب سے دیے گئے بیانات کے مطابق، عمران خان اس وقت عدلیہ اور انتظامیہ دونوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “ہمارے پاس سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا” یہ وہ مقام ہے جہاں سیاسی تحریکیں یا تو فیصلہ کن بن جاتی ہیں یا غیر مؤثر ہو جاتی ہیں۔
پی ٹی آئی کو عدالتوں سے ریلیف نہ ملنا، میڈیا پر محدود کوریج، اور کارکنان کی گرفتاریوں کا سامنا پہلے ہی ہو چکا ہے۔ ان حالات میں تحریک کا آغاز ایک سیاسی دباؤ کی حکمت عملی بھی ہو سکتا ہے تاکہ ریاستی ادارے دوبارہ بات چیت کی میز پر آئیں۔
پی ٹی آئی کی فیصلہ کن تحریک میں پارٹی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جیسا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ غیر موثر ہو چکا ہے، اور متعدد مرکزی رہنما یا تو خاموش ہیں یا قانونی مسائل میں الجھے ہوئے۔
ماضی کے برعکس اب تحریک کو عدالتی، قانونی اور ریاستی ردِعمل کا شدید سامنا ہو گا۔ دفعہ 144، گرفتاریوں، اور پابندیوں کے تناظر میں تحریک کو مربوط رکھنا ایک کڑا امتحان ہوگا۔
تحریک کا مرکز اسلام آباد نہ بنانے کا فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ پارٹی براہ راست تصادم سے گریز کر رہی ہے۔ امکان ہے کہ یہ حکمت عملی ریاستی ردِعمل سے بچنے اور تحریک کو “پھیلانے” کے لیے اختیار کی گئی ہو۔
یہ فیصلہ کن عنصر ہوگا۔ اگر عوامی شرکت وسیع اور پُرجوش ہوئی تو یہ تحریک عمران خان کے لیے سیاسی واپسی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، ورنہ یہ صرف ایک علامتی دباؤ بن کر رہ جائے گی۔
یہ سینیٹر علی ظفر کی جانب سے دعویٰ کی گیا کہ ایسی فیصلہ کن تحریک آج تک ملک میں نہیں چلی لیکن پاکستانی سیاست میں احتجاجی تحریکوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسی کئی “فیصلہ کن تحریکیں” پہلے بھی آئیں مگر کمزور تنظیم، داخلی اختلافات یا ریاستی طاقت کے باعث دم توڑ گئیں۔
اس مرتبہ فرق صرف یہ ہے کہ عمران خان جیل میں رہ کر قیادت کریں گے یہ بیانیہ توانا ضرور ہے، مگر صرف بیانیے سے تبدیلی نہیں آتی، اسے عمل، عوامی قوت، اور حکمت عملی سے تقویت دینا پڑتی ہے۔
عمران خان کی جیل سے تحریک بلاشبہ ایک سیاسی تجربہ ہے، جس میں ہمدردی، مظلومیت اور مزاحمت جیسے جذباتی عناصر شامل ہیں تاہم اسے فیصلہ کن بنانے کے لیے پی ٹی آئی کو ایک مضبوط، منظم اور پرامن تحریک کے تمام اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ورنہ یہ بھی ان بیانات کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جو وقتی سرخیاں تو بناتے ہیں، مگر تاریخ میں جگہ نہیں بنا پاتے۔