نور مقدم کے والد نے بیان ریکارڈ کرادیا، ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کا مطالبہ

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت علی مقدم نے اسلام آباد کی عدالت میں بیٹی کے قتل کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کردیا۔ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے مقدمے کی سماعت کی، اس دوران شوکت علی مقدم نے کہا کہ میری کسی سے ‘ذاتی دشمنی’ نہیں ہے لیکن انہوں نے ‘میری بیٹی کو ناحق قتل کیا۔
انہوں نے کہا کہ ظاہر جعفر کو سزائے موت دی جانی چاہیے،دوران سماعت بیان ریکارڈ کروانے سے قبل شوکت علی مقدم سے حلف لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ بیان سے پہلے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ زندگی میں پہلی بار کسی عدالت میں پیش ہوا ہوں، اگر بات پروٹوکول کے مطابق نہ ہو تو درگزر کر دیجیے گا جس کے بعد جج نے انہیں بیان ریکارڈ کروانے کی ہدایت دی۔

نور مقدم کے والد کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی بیوی 19 جولائی کو کچھ کام کے لیے گھر سے نکلے تھے اور جب وہ اپنے گھر واپس آئے تو نور وہاں نہیں تھی۔

انہوں نے بتایا گیا کہ نور کافی دیر تک واپس نہیں آئی، جب شوکت کی اہلیہ واپس آئی تو نور کو فون کیا لیکن نور کا موبائل بند تھا۔شوکت علی مقدم نے بتایا کہ اس کے بعد اس نے نور کو ڈھونڈنا شروع کیا اور جب نور نے ان کا فون اٹھایا تو اس نے کہا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے اپنی سہیلیوں کے ساتھ لاہور جارہی ہے اور اپنے والدین سے کہا کہ وہ فکر نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ظاہر کے گھر والوں کو جانتا ہوں، 20 جولائی کو ظاہر نے مجھے دوپہر کے وقت دو نمبروں پر کال کی اور کہا کہ نور اس کے ساتھ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بعد ازاں رات 10 بجے انہیں کوہسار تھانے سے کال آئی جس میں اطلاع دی گئی کہ ان کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے اور انہیں پولیس اسٹیشن بلایا گیا۔شوکت مقدم نے بتایا کہ وہ تھانے پہنچے تو انہیں ایک گھر لے جایا گیا جو ظاہر کا گھر تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے گھر کے اندر جاکر دیکھا کہ نور کو بیدردی سے قتل کردیا گیا ہے اور اس کا سر تن سے جدا تھا۔انہوںنے کہاکہ انہوں نے نور کی لاش کی شناخت کی اور اپنا دستخط شدہ بیان اسسٹنٹ سب انسپکٹر زبیر مظہر کو دیا اور بعد میں موت کی وجہ سے متعلق رپورٹ پر دستخط کیا تھا،شوکت علی مقدم نے کہا کہ انہوں نے نور کی لاش 21 جولائی کو پوسٹ مارٹم کے لیے حوالے کی تھی۔
انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ 23 جولائی کو انہیں نور کے موبائل کی تفتیش اور بازیابی کے لیے بلایا گیا تھا اور انہوں نے کہا کہ جب وہ ظاہر سے پوچھ گچھ کے اگلے روز تھانہ کوہسار گئے تو ملزم نے انکشاف کیا کہ اس نے نور کو 18 جولائی کو فون کیا تھا اور اس سے قبل اس کا موبائل ضبط کر لیا تھا۔شوکت نے بتایا کہ ظاہر کی رہائش گاہ پر جانے پر فون الماری سے ملا۔
ظاہر کے والد اور شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ خان نے پھر شوکت مقدم کے بیان پر جرح کی۔انہوں نے شوکت مقدم سے کہا کہ وہ تصدیق کریں کہ کیا نور کا انہیں بتائے بغیر ان کے گھر سے نکلنا معمول تھا، انہوں نے مقتولہ کے والد سے اس بارے میں بھی سوال کیا کہ انہوں نے نور کو کس جگہ تلاش کیا تھا اور کیا انہوں نے تفتیش میں اس کے دوستوں کے نام فراہم کیے تھے۔
شوکت علی مقدم نے جواب دیا کہ نہیں، میں نے کسی دوست کا نام نہیں لیا اور فون کال آنے کے بعد میں نے نور کو تلاش نہیں کیا۔تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی کی جرح کے دوران شوکت علی مقدم نے تفصیلات بتائی جن کا انہوں نے پہلے ذکر نہیں کیا تھا، جس میں نور کے دوستوں کے رابطہ نمبر اور ان کی کال کا وقت اور ظہور کی کال کا وقت شامل تھا۔
اکرم قریشی نے کہا کہ آپ نے عدالت میں غلط بیانی کی کہ نور نے آپ کو بلایا، شوکت مقدم نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔شوکت مقدم نے کہا کہ انہیں اس پولیس افسر کا نام یاد نہیں جس نے انہیں فون کیا تھا۔انہوںنے کہاکہ مجھے ایسی خوفناک خبریں موصول ہوئی ہیں کہ مجھے نام یاد نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں اس افسر کا نام بھی یاد نہیں جس سے وہ پولیس اسٹیشن میں ملے تھے اور مقدمہ درج کیے بغیر چلے گئے تھے۔
شوکت مقدم نے کہا کہ انہوں نے 20 جولائی کی رات اور 21 جولائی کی صبح سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی، وہ جعفر خاندان کے علاوہ کسی دوسرے ملزم کو نہیں جانتے اور نہ ہی ان کا شناخت پریڈ کروایا گیا۔اس دوران ظاہر کے وکیل سکندر ذوالقرنین کے جونیئر وکیل نے عدالت میں میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘سکندر ذوالقرنین کورونا وائرس میں مبتلا ہیں۔عدالت نے آئندہ سماعت پر تفتیش پر جرح کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 17 جنوری تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 27 سالہ نور کو 20 جولائی 2021 کو دارالحکومت کے پوش علاقے سیکٹر ایف- 7/4 میں ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا، اسی روز ظاہر جعفر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے جائے وقوع سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔واقعے کا مقدمہ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل) کے تحت درج کیا گیا تھا۔عدالت نے 14 اکتوبر کو ظاہر سمیت مقدمے میں نامزد دیگر 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی۔
ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، ان کے تین ملازمین افتخار (چوکیدار)، جان محمد (باغبان) اور جمیل (خانسامہ)، تھیراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس شامل ہیں۔قتل کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت 20 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی۔