کارڈ چھپ گئے، شادی کی تیاریاں بھی ہو گئی تھیں ۔۔ وہ جوان جو شادی سے کچھ روز پہلے شہید ہو گئے اور انہیں پرچم میں لپیٹ کر گھر لایا گیا
(قدرت روزنامہ)پاکستانی فوج دشمن کی ہر چال پر نظر رکھتی ہے، چاہے وہ
واندرونی دشمن ہو یا پھر بیرونی، پاکستانی فوج کا ہر جوان ایسے تمام پہلوؤں کو چھوڑتی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ جوان شادی سے ایک دن پہلے تک بھی اگلے محاز پر ہوتے ہیں۔اس خبر میں آپ کو چند ایسے ہی جوانوں کے بارے میں بتائیں گے جن کی شہادت سے چند پہلے ہوئی جب کارڈ بھی چھپ چکے تھے۔ کیپٹن روح اللہ شہید: کیپٹن روح اللہ کا تعلق چارسدہ کے علاقے شبقدر سے تھا، کیپٹن روح اللہ بھی ان شہید جوانوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی شہادت سے متعلق پیشگی خواہش کا اظہار کر دیا تھا۔ کوئٹہ میں پولیس کوارٹرز پر حملے کے بعد دوران آپریشن کیپٹن روح اللہ شہید ہو گئے تھے، جبکہ شہادت کے دو ماہ بعد ہی کیپٹن روح اللہ کی شادی تھی۔ شہید کے بھائی کا کہنا تھا کہ روح اللہ نے پہلے ہی اپنی شہادت سے متعلق آگاہ کر دیا تھا، اور روح اللہ کی خواہش تھی کہ اسے شہادت کا اعلٰی رتبہ ملے، اور آج وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے۔ کیپٹن روح اللہ سمیت کئی ایسے شہید جوان ہیں جو کہ اپنے پختہ ارادوں کی وجہ سے شہادت جیسے رتبہ لینے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ دہشت گرد لڑ کر بھی ناکام ہو گئے اور شہید شہادت کا رتبہ پا کر کامیاب ہو گئے۔ شہید فیض اللہ: شہید فیض اللہ فرنٹئیر کور (ایف سی) کے جانباز جوان تھے۔ شہید فیض اللہ گلگت بلتستان میں شہید ہو گئے تھے۔ شہادت سے چند روز قبل فیض اللہ کی شادی طے پا گئی تھی، تیاریاں عروج پر تھیں، فیض اللہ کی شادی کے کارڈ چھپ چکے تھے، مگر شہادت کی خبر نے شادی کے گھر میں افسردگی کا ماحول پیدا کر دیا تھا، اگرچہ فیض اللہ شہید ہوئے تھے، مگر جوان اولاد کا غم کسی بڑے صدمے سے کم نہیں تھا۔ کیپٹن کاشف شہید: شہید کیپٹن کاشف علی، ایک فرماںبردار، ماں کے لیے ہر مصیبت برداشت کرنے والا بیٹا، باپ کی آںکھ کا تارا، مشکل وقت برداشت کیا مگر والدین کو پتہ تک نہیں لگنے دیا۔ کیپٹن کاشف رواں سال اگست بلوچستان کے علاقے آوران میں شہید ہو گئے تھے۔ جواں سال عمر میں کیپٹن کاشف کی شہادت نے ہر ایک کو نہ صرف افسردہ کر دیا تھا بلکہ ان کی والدہ کے بیان نے سب کو ہمت اور حوصلہ بھی دیا تھا۔ والدہ کہتی ہیں کہ بہت ہی فرماںبردار بیٹا تھا، میں جب بھی شادی کا کہتی تھی تو کہتا تھا کہ آپ کی مرضی ہے جہاں کرنا چاہو کردو۔ ہم نے لڑکی بھی ڈھونڈ لی تھی بیٹے کی شادی کے لیے۔ والدہ کا کہنا تھا کہ بیٹا ہمیشہ اچانک آتا تھا اور جب میں کہتی تھی کہ یوں اچانک کیوں آتے ہو، بتا دیا کرو تو وہ کہتا تھا کہ میں آپ کے چہرے کی خوشی کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ جب کبھی میں بیٹھی ہوتی تھی، تو کہتا تھا کہ آپ کیا سوچ رہی ہوں، کیوں پریشان ہو؟ وہ ہمیشہ ہمارے لیے فکر مند تھا۔ شہادت سے کچھ پہلے ہی ہمیں عجیب سی تشویش آ رہی تھیں۔ میں رات کو سورہ فتح سمیت کئی سورتیں پڑھ کر بیٹے کا تصور کر کے اس پر پھونکتی تھی تب جاکر مجھے سکون ملتا تھا۔