بلوچستان ہائیکورٹ کا خواتین کے وراثتی حق کو محفوظ بنانے پر زور

(قدرت روزنامہ)بلوچستان ہائیکورٹ کا خواتین کے وراثتی حق کو محفوظ بنانے پر زور شمطابق جسٹس مہمند کامران خان ملا خیل نے اپنے ایک فیصلے میں حکم دیا کہ کسی خاتون حصہ دار کی وراثتی حق سے محرومی کی صورت میں پورا عمل کالعدم ہوجائے گا . بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمالک خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس مہمند کامران خان ملا خیل پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ایڈووکیٹ محمد ساجد ترین کی درخواست پر سماعت کی .

درخواست میں اس بات کو اجاگر کیا گیا تھا کہ صوبے میں پیچیدہ قبائلی نظام کے پس منظر میں خواتین کے وراثت کے حق کو نہیں مانا جا رہا اور انہیں ان کے جائز حق سے محروم رکھا جارہا ہے . 30 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ وراثت کے سلسلے میں کوئی سمجھوتہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھے گا جب تک پہلے خواتین سمیت تمام حصہ داروں کے نام جائیداد نہ کردی جائے . اگر کوئی جائیداد خاتون حصہ دار کا نام چھپا کر یا خارج کرکے منتقل/تبدیل کی جاتی ہے تو پورے عمل کو کالعدم سمجھا جائے گا اور سول دائرہ اختیار کی عدالت سے رجوع کیے بغیر اسے پلٹایا جاسکے گا . اسی طرح کوئی خاندانی تصفیہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک اس بات کو یقینی نہ بنایا جاسکے کہ خواتین حصہ داروں کے نام بھی کارروائی میں شامل ہیں . عدالتی فیصلے کے مطابق بورڈ آف ریونیو کے سینیئر رکن یا سیکریٹری اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ تصفیہ کی کارروائی شروع ہونے سے قبل فیصلے کا اردو میں لکھا ہوا پرچہ لڑکیوں کے اسکولوں،کالجز اور ہسپتالوں کے علاوہ گھر گھر تقسیم کیا جائے گا . ساتھ ہی ڈپٹی کمشنرز کو فیصلے کا اردو اور مقامی زبانوں میں لاؤڈ اسپیکرز اور مدرسوں میں عام کرنے اور جس علاقے میں تصفیے کی کارروائی ہورہی ہو وہاں نقارہ بجا کر سڑکوں پر اس کا اعلان کرنے کی ہدایت کی گئی . عدالت نے نادرا کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کی ہے کہ تصفیے کی کارروائی کے دوران وفات پانے والے جس شخص کی جائیداد کی وراثت یا تصفیہ ہونا ہو اس کا خاندانی شجرہ فراہم کرنے کے لیے متعلقہ اضلاع یا تحصیل کے ریونیو دفاتر میں خصوصی ڈیسک قائم کی جائیں تاکہ خواتین کے ناموں کی متوفی کے ورثا میں شمولیت یقینی بنائیں جاسکے . علاوہ ازیں بورڈ آف ڈائریکٹرز کے عہدیداران کو بھی ریونیو دفاتر میں ایک شکایتی سیل قائم کرنے کی ہدایت کی گئی تا کہ وراثت کے عمل میں غیر معمولی تاخیر اور غیر قانونی عمل سے بچا جاسکے . ساتھ ہی عہدیداران کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ خواتین کو ان کے قانونی حق سے محروم کر نے کی کسی بھی شکایت پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 498-اے کے تحت مقدمہ درج کر کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے . .

متعلقہ خبریں