آصف زرداری وزیراعظم عمران خان کا مرکزی ہدف کیوں؟

کراچی(قدرت روزنامہ)وزیراعظم عمران خان نےتحریک عدم اعتماد سے بچنے کے بعد سابق صدر آصف زرداری کو اپنا ٹارگٹ نمبرون کیوں قراردیا؟جوان کیلئے2018میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اب تک کاسب سےمشکل چیلنج ہے.عمران خان نےاپنےباقی دوحریفوں شریف برادران اورمولانافضل الرحمان کوبھی تنقیدکانشانہ بنایالیکن آصف زرداری کوواضح الفاظ میں للکارا۔گورنرہائوس کراچی میںاپنےتینوں مخالفین کےخلاف سخت تنقیدی تقریرمیںزرداری سےمتعلق کہاکہ میراپہلاہدف آصف زرداری ہوں گےجوبہت پہلےسےمیری ہٹ لسٹ میں اوپرہیں۔
انہوں نےلوگوں کومارا،پولیس اورگینگسٹرزکواستعمال کیا،وزیراعظم نےکہاکہ زرداری تمہاراوقت پوراہوگیاہے۔عمران خان کی جانب سےآصف زرداری کومرکزی ہدف بنانےکی کئی وجوہات ہیں،یہ آصف زرداری کاسیاسی چال بازیوں کافن ہےجس کی وجہ سے2018کےانتخابات سےپہلے بلوچستان میں سیاسی بغاوت کےذریعےعمران خان کوفائدہ پہنچا۔
آصف زرداری نےانتخابی طاقت کےباوجودبلوچستان میں مسلم لیگ(ن)کےخلاف ہواکارخ موڑااورایک نئی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی بنائی گئی۔جس کےارکان نے2018کےالیکشن کےبعدعمران خان کاوزیراعظم منتخب ہونےکیلئے ساتھ دیا،آصف زرداری نےعمران خان کی سینیٹ الیکشن میں بالواسطہ حمایت کی جب بی اےپی کےصادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئےاورن لیگ کےامیدوارکوشکست ہوئی۔آصف زرداری نےاس طرح سابق وزیراعظم نوازشریف سے مسلم لیگ(ن)کےدورمیں ڈاکٹرعاصم حسین سمیت قریبی ساتھیوں کی گرفتاری کاسیاسی بدلہ لیا، آصف زرداری نےبعدمیںبھی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کےخلاف عدم اعتمادمیں عمران خان کی بلواسطہ حمایت کی جب سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کےباجودیہ تحریک ناکام ہوئی.
وزیراعظم عمران خان اب سمجھتےہیںکہ تحریک عدم اعتمادکےماسٹرمائنڈآصف زرداری ہیں اوروہ یہ بھی سمجھتےہیںکہ زرداری ٹیبل پرچیزوں کوبدل سکتےہیں،یہ آصف زرداری ہیں چاہے وہ اسے پسند کریں یا نہ کریں اور اس سے قطع نظر کہ وہ یہ کیسے کرسکتےہیں۔اب وزیراعظم اتنےغلط بھی نہیں جب گزشتہ سال جب آصف زرداری نےاپنےسابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کوپی ٹی آئی کےاکثریت والی قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان ہی کی مددسےسینیٹرمنتخب کرواکروزیراعظم کوشدیددھچکاپہنچایاتھااو رجوعمران خان کوبھی معلوم ہے۔بعدمیں زرداری نےڈبل گیم کےذریعےیوسف رضاگیلانی کواپوزیشن لیڈرسینیٹ منتخب کروایاجب وہ چیئرمین سینیٹ کاالیکشن ہارگئےتھے۔کئی لوگوں کویہ یقین ہےکہ تحریک عدم اعتمادکےپیچھےآصف زرداری ہیں اوروہ ایک طرف پی ٹی آئی کےاندرڈنٹ(دراڑ) ڈال رہےہیں دوسری طرف مسلم لیگ(ق)کےساتھ بھی غیرفطری اتحادکررہےہیں۔
آصف زرداری کی گجرات کےچودھریوں کے ساتھ2008 کے بعد سے انڈر اسٹینڈنگ بھی وزیراعظم کیلئےچیزیں مشکل بنارہی ہے،چودھری وزیراعظم سےزیادہ آصف زرداری پراعتمادکرتےہیں۔اس کشمکش اورتحریک عدم اعتمادکےتناظرمیں ق لیگ اوردیگراتحادیوں نےوزیراعظم کومشورہ دیاہےکہ اتحادیوں سےمتعلق پریشان ہونے کے بجائے پہلے وہ اپنےگھر(ارکان کو سنبھالیں جو انتشارکا شکار ہے۔
اگروہ ایوان سے اعتمادکاووٹ لینےمیں ناکام ہوتےہیں توان کی پارٹی میں مزیدتوڑپھوڑہونےکےامکانات ہیں،اس کےبعدانہیں2018میں حکومت سنبھالنے کے بعداپنی پالیسیوں پرنظرثانی اور خلاپر کرنےکاموقع ملے گا، اگراعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوجاتےہیں توہرامکان موجود ہےکہ وہ اپنےمخالف مرکزی اپوزیشن رہنمائوں کےخلاف مزیدسخت ہوجائیں گے جس کا وہ اشارہ دے چکےہیں۔
موجودہ بحران کیا لیکر آئےگا اور کیا آئندہ دو ہفتوں میں وہ حالات پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟دونوں صورتوں میں آنےوالےہفتوں میں سیاسی محاذآرائی ممکنہ ہارس ٹریڈنگ اورمسل پاورکی طرف جاتی دکھائی دیتی ہے۔ابھی ان کےپاس شوکرنےکیلئےکارڈزباقی ہیں جیساکہ ہم نےماضی میں بھی دیکھاکہ حکومت کےپاس ایسی صورتحال میں معمولی برتری ہوتی ہے۔وہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے کیا حربے استعمال کریں گے؟ اپنے ارکان کواسمبلی سیشن میں جانے سے روکیں گے؟قا نونی رائے آرٹیکل 63اے کے ذریعے نا اہلی پرمنقسم ہے.
اس کےعلاوہ عمران خان ضمنی الیکشن اورکنوٹمنٹ بورڈبلدیاتی انتخابات میں پارٹی کی شکست کوکبھی ٹھیک سےسمجھ نہیں پائےاور حال ہی میں کےپی بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں شکست کی وجوہات نہیں جان پائے جس پرانہوں نےپارٹی تنظیم کو تحلیل کرکے نئی تنظیم کااعلان کیا۔تحریک عدم اعتمادآنےکےبعدبھی ان کی پارٹی میں کئی گروپ سامنے آئےہیں تاہم ایم کیوایم پاکستان کےساتھ ملاقات سےانہیں کچھ امیدملی ہے۔