افغان مہاجرین کو دپیش مشکلات

رپورٹ: محمد ناصر شاہوانی

1979کو افغانستان میں آنےوالے ثور انقلاب کے فوری بعد مسلمہ کے والدین نے دیگر لاکھوں افغان پناہ گزین کی طرح پاکستان ہجرت کی، مسلمہ کی پیدائش کوئٹہ میں ہوئی۔

روئڈرک سکوچ نے سنہء 2008 میں عالمی ادراہ برایے پناہ گزین کے لئے (افغان ریفیوجیز ان پاکستان ڈیورنک 1980 کے نام سے ریسرچ پیپر شائع کیا جس کے تحت 80 کی دہائی میں تیس لاکھ سے زائد افغانی باشندوں نے جنگ سے متاثر ہوکر پاکستان ہجرت کی، اور یوں ہجرت کا سسلسہ جاری رہا۔

مسلمہ نے بتایا کہ ” کہ جب میں 10 سال کی تھی تو ہمارا پورا گھرانہ پاکستان سے افغانستان منتقل ہوگیا جہاں ہم صرف پانچ سال ہی گزار سکے۔ جنگ زدہ حالات کے باعث روزگار اور تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

جس کی وجہ سے افغانستان میں رہنا مشکل ہوگیا اور ہم واپس پاکستان ہجرت کر گئے۔ یہاں آکر میں نے ایک غیر سرکاری تنظیم کے توسط سے مڈوائف کا کورس مکمل کیا اور اب میں مختلف ہسپتالوں میں بطور مڈوائف اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہوں۔”

انہوں بتایا کہ پناہ گزین ہونے کے ناطے انہیں کسی بھی وقت نوکری سے برخاست کیا جاسکتا ہے اور اس سلسے میں انہیں سوشل پروٹیکشن حاصل نہیں مسلمہ کو تنخواہ کے حصول میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ پناہ گزین ہونے کی وجہ سے ان کا کوئی بینک اکاونٹ نہیں ہے انہیں تنخواہ چیک کے ذریعہ ملتی ہے جس میں بھی مسلمہ کو اکثر و پیشتر مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور دیگر روز مرہ کی معمولات بھی اس سے مختلف نہیں۔

مسلمہ کے مطابق ”میری تمام تر خدمات پاکستان کے لئے ہی ہیں لیکن اس کے بدلے میں بطور پناہ گزین ہمارے بھی حقوق ہیں حکومت کو چاہئے کہ وہ ہمیں بینک اکاونٹس کھولنے کی اجازت دے تاکہ پاکستان میں مقیم پناہ گزین کے لئے آسانیاں پیدا ہو سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دیگر تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ہم بھی باعزت شہری کی حثیت سے زندگی گزار سکیں۔

(یو این ایچ سی آر) کے میڈیا آفیسر قیصر آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت رجسٹرڈ (پی او آر) پروف آف رجسٹریشن کارڈ ہولڈر افغان پناہ گزین کی کل تعداد1,421,946جن میں سے مردوں کی تعداد %54 جبکہ خواتین کل تعداد کا %46 فیصد بنتی ہے بلوچستان میں افغان پناہ گزین کی کل تعداد 325,732 ہے۔ قیصر آفریدی نے بتایا کہ 2006 سے2007 تک نادرا کے ذریعہ افغان پناہ گزین کی رجسٹریشن کو عمل میں لایا گیا۔

صوبے کی بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی نے 8 اگست 2018 کو کوئٹہ میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ 6 نکاتی یادداشت پر دستخط کرتے ہوئے مرکزی حکومت کی تشکیل میں پاکستان تحریک انصاف کی کی حمایت کی تھی ان 6 نکات میں سے ایک نقطہ افغان مہاجرین کے باعزت انخلا کا تھا۔ جبکہ حالیہ بجٹ اجلاس میں بی این پی کے چئیرمین اختر مینگل نے اسمبلی کے فلور پر وفاقی حکومتی اتحاد سے علیحیدگی کا اعلان کیا تھا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء غلام بنی مری نہ صرف افغان مہاجرہن بلکہ ملک میں بسنے والے تمام دیگر مہاجرین کے باعزت انخلاء پر زور دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مہاجرین کی وجہ سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ شروع کے چند سالوں میں افغان مہاجرین کو کیمپوں کی حد تک محدود کیا گیا تھا لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے افغان مہاجرین نے شہروں میں آبادکاری شروع کردی جس سے حالات خراب تر ہوتے چلے گئے۔

غلام نبی مری کے مطابق افغان پناہ گزین کی وجہ سے مقامی افراد کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری جماعت نے وفاقی حکومت مہاجرین کے باعزت انخلا کر کے ان کے اپنے ممالک بھیجے جانے کی ہمیشہ سے بات کی ہے کیونکہ مہاجرین کی وجہ سے ملک میں مسائل پیدا ہو رہےہیں، حکومت سمیت اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرتےہوئے مہاجرین کے باعزت انخلا کو ممکن بنائے۔

وہ بتاتے ہیں” افغان مہاجرین ایران کے ساتھ بڑے پیمانے پر چاول کی تجارت کرتے آرہے ہیں اور یہ تمام تجارت بہت بڑے سیکیورٹی رسک اور سخت شرائط کی بنیاد پر ہوتی ہے کیونکہ ان افغان مہاجر تاجران کو پاکستان میں بینکنگ کی سہولت اور لیگل ڈاکیومینٹس بنانے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت چاہئے کہ وہ ایس او پیز بناکر افغان مہاجر تاجران کو سہولت فراہم کرے۔ اگر یہی رقم انہوں نے دبئی اور کسی اور ملک منتقل کر دی تو پاکستان کی معیشت کو نقصان کا سامنا کرنا

پڑے گا۔’’

آصف ترین کاروباری شخصیت ہیں اور چیمبر آف کامرس کے رکن بھی وہ بتاتے ہیں کہ چیمبر آف کامرس کی جانب سے افغان مہاجرین تاجران کو یہ سہولیات حاصل ہے کہ وہ اپنے پی او آر کارڈ کی بنیاد پر جائیداد کے مالک کے ساتھ اقرار نامہ لکھتے ہوئے اپنے لئے دفتر کھول سکتے ہیں اور اس کے ساتھ انہیں نیشنل ٹیکس نمبر، ریٹرن، سیلز ٹیکس کے اجراء کی سہولت بھی حاصل ہے۔ اسی کارڈ کی بنیاد پر وہ پاکستان کسٹمز میں سے کلئیرنگ بھی کرا سکتے ہیں، جبکہ حقیقیت دوسری جانب یہ ہے کہ تاجران تقریبا ان سہولیات سے مستفید نہیں ہو پا رہے ہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجر تاجران کو کاروبار میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے مذید بتایا کہ” ملک کے چاروں صوبوں کے چیمبرز کی صورتحال افغان مہاجرین تاجران کے لئے مختلف ہے، یہ تاجران پاکستان میں بڑے پیمانے پر خشک میوہ جات کا کاروبار کرتے ہیں اور اس سے ملک کی معیشت کو کافی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر حکومت چیمبر آف کامرس کے ساتھ مل کر ایک بہتر پالیسی بناکر اس پالیسی پر عمل در آمد کرائے تو افغان مہاجر تاجران کو سہولیات کی فراہمی ممکن ہوسکے گی جس سے پاکستان کی معیشت کو مزید فائدہ ہوگا۔

صوبے کی بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی نے 8 اگست 2018 کو کوئٹہ میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ 6 نکاتی یادداشت پر دستخط کرتے ہوئے مرکزی حکومت کی تشکیل میں پاکستان تحریک انصاف کی کی حمایت کی تھی ان 6 نکات میں سے ایک نقطہ افغان مہاجرین کے باعزت انخلا کا تھا۔ جبکہ حالیہ بجٹ اجلاس میں بی این پی کے چئیرمین اختر مینگل نے اسمبلی کے فلور پر وفاقی حکومتی اتحاد سے علیحیدگی کا اعلان کیا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء غلام بنی مری نہ صرف افغان مہاجرہن بلکہ ملک میں بسنے والے تمام دیگر مہاجرین کے باعزت انخلا کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مہاجرین کی وجہ سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ شروع کے چند سالوں میں افغان مہاجرین کو کیمپوں کی حد تک محدود کیا گیا تھا لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے افغان مہاجرین نے شہروں میں آبادکاری شروع کردی جس سے حالات خراب تر ہوتے چلے گئے۔

غلام نبی مری کے مطابق افغان پناہ گزین کی وجہ سے مقامی افراد کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری جماعت نے وفاقی حکومت مہاجرین کے باعزت انخلا کر کے ان کے اپنے ممالک بھیجے جانے کی ہمیشہ سے بات کی ہے کیونکہ مہاجرین کی وجہ سے ملک میں مسائل پیدا ہو رہےہیں، حکومت سمیت اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرتےہوئے مہاجرین کے باعزت انخلا کو ممکن بنائے۔

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی صوبے کی سب سے بڑی پشتون قوم پرست جماعت ہے۔

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنماء و رکن صوبائی اسمبلی بلوچستان نصراللہ زیرے نے بتایا کہ “پاکستان نے جنرل ضیاء کے دور اقتدار میں اور اس کے بعد بھی افغان پناہ گزین کے نام پر دنیا بھر سے اربوں ڈالر امداد وصول کی جو کہ پناہ گزین افراد تک نہیں پہنچ سکی۔ 1978 کے بعد افغانستان میں تبدیلی آئی دنیا کی استعماری، شاونسٹ اور فاشسٹ ممالک نے بشمول اسلام آباد سے فوجی جرنیل ضیاالحق اور پھر بعد میں جنر مشرف نے امریکی استعمار کی قیادت میں افغانستان میں مداخلت کر کے جارحیت کا آغاز کیا جس کے بعد لاکھوں افغان اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے فیصلے کے تحت پاکستان اور دیگر ممالک کو ہجرت کر نے پر مجبور ہوگئے۔

یو این ایچ سی آر کے اسسٹڈ وولینٹئیرلی ریپارٹیشن پروگرام کے تحت سنہء 2002 سے لیکر اب تک 44 لاکھ تک افغان پناہ اپنے ملک کو واپس جا چکے ہیں، اگر افغانستان کے حالات ٹھیک ہوتے ہیں تو پاکستان میں مقیم تمام افغان پناہ گزین واپس اپنے ملک چلیں جائیں گے۔