اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مذہب کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے، بہت خوش ہوں کہ پہلی بار عالمی سطح پر اسلاموفوبیاکا اداراک کیا جارہا ہے . اسلام روشن خیال، شدت پسند، جدت پسند، انتہاء پسند اسلام نہیں بلکہ صرف ایک اسلام ہے، مسلم ممالک اور چین بلاک بناکر یوکرائن جنگ روکنے کی کوشش کریں، افسو س ہم فلسطین اور کشمیر معاملے پر خاموش رہے ، ہم 1.5 ارب آبادی ہیں، لیکن ہماری آواز کوئی نہیں سنتا، فلسطینیوں اور کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں دیا گیا، افغان سرزمین سے بین الاقوامی دہشتگردی کا مکمل
خاتمہ کرنا ہوگا، ہمیں تنازعات کا نہیں، امن کا حصہ دار بننا ہے .
او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ او آئی سی اجلاس پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہورہا ہے ہے، او آئی سی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی آمد پر ان کا مشکور ہوں . اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن قرار دیا، اس کے لیے 15مارچ کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ اس روز نیوزی لینڈ میں ایک شخص نے مسجد میں گھس کر مسلمانوں کو قتل کیا تھا، اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اس کے نزدیک تمام مسلمان دہشتگرد ہیں . انہوں نے کہا کہ مذہب کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں اسلاموفوبیا بڑھتے ہوئے دیکھا، اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگردی سے جوڑ دیا گیا، بہت معذرت کے ساتھ میں کہوں گا کہ اس کے ذمہ دار ہم خود تھے کیونکہ اس بیانیے کا توڑ کرنے کے لیے ہم نے اقدامات نہیں اٹھائے . انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک کو اس حوالے سے آواز بلند کرنی چاہیے تھی، دنیا کو یہ سمجھانے کی ضرورت تھی کہ دہشتگردی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا . انہوں نے کہا کہ روشن خیالی کا نعرہ محض مغرب کو مطمئن کرنے کے لیے لگایا گیا، اسلام تو صرف ایک ہی ہے لیکن دنیا کی ہرکمیو نٹی میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملہ کرنے والا بھی ان کے معاشرے کا ہی ایک حصہ تھا مگر دنیا کی کسی اور کمیونٹی کو اس طرح دہشتگردی سے نہیں جوڑا گیا . انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک کی جانب سے اس بیانیے کا جواب نہ دینے کا نتیجہ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا، نائن الیون کے بعد غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مشکل ترین دور شروع ہوا . 1989 میں ایک گستاخانہ کتاب سلمان رشدی نے لکھی، اس واقعے کے بعد بھی مسلم ممالک مغرب کو توہین رسالت سے متعلق مسلمانوں کی حساسیت سے آگاہ نہیں کرسکے . ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں مذہب کو اس طرح نہیں سمجھا جاتا جس طرح مسلم ممالک میں مذہب کو اہمیت حاصل ہے، اس لیے مغربی ممالک توہین اور گستاخی سے متعلق مسلمانوں کے جذبات نہیں سمجھ سکتے . انہوں نے کہا کہ اسی لیے ہر تھوڑے عرصے بعد مسلم ممالک کی جانب سے گستاخیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والے ردعمل سے اسلاموفوبیا بڑھتا گیا . انہوں نے کہا کہ میں بہت خوش ہوں کہ پہلی بار عالمی سطح ہر یہ ادراک کیا جارہا ہے کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقیت ہے اور اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، اب ہم دنیا کو یہ باورکرانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے کہ گستاخی اور توہین آ میز واقعات سے کس طرح ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں . انہوں نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہیں جو اسلام کے نام پر قائم ہوا، قرارداد مقاصد کے مطابق پاکستان کو مدینہ کے طرز پر اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے . ویزراعظم نے کہا کہ افسوس ہے کہ مسلمان خود مدینہ کی ریاست کے ماڈل سے آگاہ نہیں ہیں، میں لوگوں سے کہتا ہوں کے ایک عظیم انقلاب کے نتیجے میں بننے والی ریاست مدینہ کے ماڈل کو سمجھیں . انہوں نے کہا کہ حضرت محمد ﷺ کو قرآن میں رحمت اللعٰلمین کا لقب دیا گیا، حضرت محمد ﷺکی دنیا میں آمد کا مقصد انسانیت کو متحد کرنا تھا، انہوں نے ایک جدید نظام تشکیل دیا، انہوں نے کہا کہ میری بیٹی بھی جرم کرے تو وہ بھی سزا کی حقدار ہوگی . انہوں نے کہا کہ آج دنیا بھر کے پسماندہ ممالک پر نظرڈالیں، ان تمام ممالک میں یکساں بات یہی ہوگی کہ وہاں امیر اور غریب کے لیے علیحدہ قانون ہے . ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تاریخ کے پہلے 2 خلیفہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ان میں سے ایک خلیفہ ایک یہودی سے مقدمہ ہار گئے تھے کیونکہ قاضی نے خلیفہ کے بیٹے کی گواہی قبول کرنے سے انکار کردیا تھا . انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں اقلیتوں کے برابرحقوق تھے، قانون کی نظر میں سب برابر تھے، ایک عام شہری ریاست کے سربراہ کے خلاف مقدمہ جیت جاتا تھا، یہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی جہاں انسانیت کا احساس تھا، کمزوروں، غریبوں اور بزرگوں کو سہارا دیا جاتا تھا . انہوں نے کہا کہ آج میں مغربی ممالک کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ وہاں فلاحی ریاست کا جو تصور موجود ہے وہ مسلم ممالک میں کہیں نہیں نظر آتا، ہمارے یہاں انسانوں کو وہ حقوق نہیں مل رہے جو مغربی ممالک میں جانوروں کو حاصل ہیں . عمران خان نے کہا کہ سربراہان مملکت اپنے آپ کو ماڈریٹ مسلمان کہلا رہے ہیں، جب آپ اپنے آپ کو ماڈریٹ مسلمان کہلاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں اسلام میں مسئلہ موجود ہے، اسلام سب کے لیے ایک ہی ہے. ہرمعاشرے میں جدت، انتہا پسندی، ہر طرح کے اثرات موجود ہوتے ہیں، جب تک آپ اپنی غلطیوں کا احساس نہیں کرتے آپ بہتر نہیں ہو سکتے، اسلام روشن خیال، شدت پسند، جدت پسند، انتہائ پسند اسلام نہیں بلکہ صرف ایک اسلام ہے، جو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسلام ہے . انہوں نے کہا کہ موبائل فون پر موجود جنسی مواد نسلیں تباہ کر رہا ہے، اس سے جنسی جرائم میں اضافہ ہورہا ہے ، طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، سوشل میڈیا انقلاب کے نقصانات تیزی سے معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں . وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو ناکام کر دیا، ہم تقسیم ہیں حالانکہ ہم 1.5 ارب آبادی ہیں، لیکن ہماری آواز کوئی نہیں سنتا، فلسطینیوں اور کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں دیا گیا، کشمیریوں سے بنیادی حقوق چھین لیے گئے ، غاصبانہ قبضہ ہوا لیکن مسلم دنیاخاموش رہی،دن دھاڑے فلسطینیوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، لیکن اس کے خلاف کوئی حقیقی کام نہیں ہو رہا ہے . عمران خان نے کہا کہ کشمیریوں کا تشخص اور جغرافیائی ہیئت سب تبدیل کیا جارہا ہے، لیکن اس پر کوئی بات نہیں ہو رہی، اگر ہم مسلم ممالک متحد ہو کر متفقہ موقف اختیار نہیں کریں گے تو کوئی ہمیں نہیں پوچھے گا . وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کو ہر ممکن انداز میں مستحکم بنانا ہو گا اور افغان عوام کی مدد کرنا ہوگی، افغان سرزمین سے بین الاقوامی دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا، مستحکم افغان حکومت ہی افغانستان سے دہشتگردی کا خاتمہ کر سکتی ہے ، افغان فخر کرنے والے، اپنی آزادی اور خودمختاری کا ہر ممکن تحفظ کرنے والے لوگ ہیں . انہوں نے مزید کہا کہ ہم دیکھیں گے چین، مسلم دنیا بلاک کی حیثیت سے کیسے یوکرائن، روس تنازعہ ختم کرا سکتے ہیں، تاہم ہمیں تنازعات کا نہیں، امن کا حصہ دار بننا ہے .
. .