سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے

اسلام آباد(قدرت روزنامہ) آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بنچ صدارتی ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔ عدالت نے تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر دیئے۔منحرف ارکان تاحیات نااہل ہونگے یا دوبارہ الیکشن لڑ سکیں گے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس کی آج سماعت ہو رہی ہے، 5 رکنی بنچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ہمراہ جسٹس اعجازالحسن، جسٹس مظہرعالم میاں خیل ، جسٹس منیب اختراور جسٹس جمال مندوخیل بنچ کاحصہ ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ صدارتی ریفرنس کے معاملے پر صوبوں کو نوٹس جاری کر رہے ہیں، خیبرپختونخوا اور سندھ کے ایڈووکیٹ جنرلز موجود ہیں۔سپریم کورٹ بار کی درخواست میں سپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت چاہے تو صوبوں کو نوٹس جاری کرسکتی ہے، صوبوں میں موجود سیاسی جماعتیں پہلے ہی کیس کا حصہ ہیں۔ جس پر عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امور کو متاثر کرنا نہیں ہوتا۔ جے یو آئی کے وکیل نے کہا کہ درخواست میں واضح کیا کہ قانون پرعمل کریں گے، ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہو گا۔
چیف جسٹس نے جے یو آئی وکیل سےمکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں، جس پرعدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا، جے یو آئی نے کشمیر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی ہے، کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو راستہ ائیرپورٹ کو جاتا ہے، کشمیر ہائی وے سے گزر کر ہی تمام جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد آتے ہیں، قانون کسی کو ووٹنگ سے 48 گھنٹے پہلے مہم ختم کرنے کا پابند کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب پہلےآپ کوسنیں گے، ہم نے سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ جے یو آئی کا جلسہ توعدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ متعلقہ حکام کو جلسے کے بارے میں عدالتی احکامات سے آگاہ کیا، قانون کےمطابق ووٹنگ کےدوران دھرنا نہیں دیا جا سکتا، قانون کہتا ہے 48 گھنٹے پہلے جگہ خالی کرنی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم نے قانون دیکھنا ہے، انتظامی امور میں مداخلت نہیں کرسکتے، ہم نے آئین کو دیکھنا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ ہدایت دے، جلسے کے دوران ماحول پرامن رہے۔کامران مرتضی نے کہا کہ درخواست میں ہم نے کہا ہے کہ ہم پرامن رہیں گے، جےیوآئی کے وکیل نے کہا کہ درخواست کا فیصلہ انتظامیہ کو کرنے دیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آئی جی اسلام آباد سے بات ہو گئی ہے، پولیس کےاقدامات سے مطمئن ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا اچھی بات یہ ہے پولیس قانون کے مطابق کارروائی کررہی ہے، صوبائی حکومتیں بھی تحریری طورپر اپنےجواب جمع کرائیں، تحریری جواب آنے پر صدارتی ریفرنس پرسماعت میں آسانی ہوگی،کامران مرتضیٰ نے پرامن دھرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔جسٹس مظہرعالم نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کا ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوسناک ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں، عدالت چاہے گی سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں۔ عدالت نے سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی۔

صدارتی ریفرنس ہے کیا؟
حکومت کی جانب سے دائر کیے جانے والے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے چار سوالات پر رائے مانگی گئی ہے۔ ریفرنس میں پوچھا گیا ہے کہ کوئی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ووٹ دے تو کیا اسے رکن کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی؟ اسے ڈی سیٹ نہیں کیا جاسکتا؟
سپریم کورٹ سے یہ رائے مانگی گئی ہے کہ کیا ایسے رکن جو پارٹی پالیسی سے انحراف کریں اور پالیسی کے خلاف ووٹ دیں تو کیا ان کے ووٹ کو شمار کیا جائے گا؟ سپریم کورٹ سے پوچھا گیا ہے کہ کیا جو وفاداری تبدیل کرتے ہوئے رکن پارٹی پالیسی کے خلاف جائے اور ثابت ہو کہ اس نے آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کی ہے تو کیا اسے رکن کو تاحیات نا اہل قرار دیا جائے گا؟چوتھے سوال میں عدالت سے رائے مانگی گئی ہے ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنے کے لیے موجودہ آئینی ڈھانچے میں کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں جس سے فلور کراسنگ کو روکا جاسکے۔