ارشد ندیم کا فائنل راؤنڈ ، کوچ کا کردار اور پاکستان میں کھیلوں کی سہولیات ، سینئر صحافی نےافسوسناک صورتحال بیان کردی

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)میاں چنوں کے چک نمبر 101 پندرہ ایل سے پیشہ کے اعتبار سے ایک مستری کے بیٹے ارشد مجید نے ٹوکیو اولمپکس کے جیولن تھرو مقابلوں میں پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے،سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ارشد ندیم کس ماحول میں رہتا ہے اور اسی گاؤں میں اس نے اپنے طور پہ ہی ٹریننگ کی ہے اور اولمپکس مقابلوں میں پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے،جہاں اسکے مقابلے میں جدید ٹریننگ کرنے والے ممالک جرمنی،چیک ری پبلک،رومانیہ،سویڈن،فن لینڈ اور بھارت جیسے ممالک کے کھلاڑی مد مقابل تھے ۔

دوسری جانب نیچے دئیے گئے ٹویٹ کے سکرین شاٹ کو بھی دیکھئیے یہ جیولن تھرو میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے بھارت کے اتھلیٹ نیرج چوپڑا کا ٹویٹ ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ انہوں اپنی ٹریننگ یورپ میں کی ہے اور وہ اپنی حکومت اور ایمبیسی کا اس حوالے سے شکریہ بھی ادا کر رہے ہیں،یہاں فرق چیک کریں دونوں ممالک میں کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کس طرح اپنے کھلاڑیوں کو ٹریننگ دیتی ہیں اور انہیں ایسے بین الاقوامی مقابلوں کے لئے تیار کرتی ہیں؟

ارشد ندیم کے والد کے مطابق ارشد نے ساری ٹریننگ خود ہی کی ہے اور اپنی محنت کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہے،ارشد کے والد نے یہ بھی بتایا کہ ارشد کو ایک ماہ پہلے کورونا بھی ہوا تھا جس وجہ سے وہ پہلے سے کافی کمزور تھا اور اچھا کھیل پیش نہیں کر سکا۔۔۔

اگر حکومت پاکستان آج سے کھیلوں کے متعلق سنجیدہ ہو جائےاور کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سطح کے مطابق سہولیات دی جائیں تو پاکستان میں کئی کھیلوں کے کھلاڑی موجود ہیں جو بین الاقوامی سطح پہ کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ایک سپورٹس مین وزیر اعظم کے ہوتے ہوئے بھی اگر ہماری کھیلوں میں بہتری نہیں آنی تو کب آئے گی؟؟؟اور پاکستانی میڈیا جو ہر معاملے میں پیپلی لائیو والا معاملہ کرتا ہے،اولمپکس سے پہلے کوئی بھی ارشد ندیم کو نہیں جانتا تھا نہ کبھی کسی نے ایسے کھلاڑیوں کو ٹریننگ کرتے دکھایا ہےاور اب جب وہ گذشتہ چار پانچ روز سے فائنل مقابلے میں کوالیفائی کر گیا تھا تو اس پہ اضافی پریشر ڈال کے اسکے بیپرز کر کے اولمپکس عہدیداروں کے انٹرویوز کر کے ارشد پہ اضافی پریشر ڈالا گیا ہے، اس اضافی پریشر کی وجہ سے ہی اس سے شائد بہتر پرفارم نہیں ہو سکا،باوثوق ذرائع کے مطابق کیا ارشد ندیم کے کوچ اگر فائنل راؤنڈ میں اسکو ٹھیک سے کھلاتے تو بھی ارشد میڈل حاصل کر سکتا تھا۔۔۔

ٹوکیو کے اولمپک ویلج سے ذرائع نے بتایا ہے کہ فائنل راؤنڈ کے دوران اگر کوچ کی توجہ فون سننے کی بجائے اپنے اتھلیٹ پہ ہوتی تو معاملہ کافی بہتر ہوتا اور شائد نتائج بھی اس سے تبدیل ہوتے۔۔۔ذرائع نے بتایا ہے کہ فائنل راؤنڈ کے دوران کوچ فیاض بخاری مسلسل فون پہ مصروف رہے حالانکہ اتنے مشکل وقت میں کوچ کی توجہ صرف اور صرف اپنے کھلاڑی کی اچھی پرفارمنس پہ ہونی چاہئیے۔۔۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ ارشد کی آخری تھرو کا اعلان ہو چکا تھا اور اسکی فائنل تھرو کا فیلڈ میں موجود کسی آفیشل نے بتایا تو ارشد کو پتا چلا کہ یہ اس کی باری ہے،جب تک ارشد اپنے رن اپ پہ پہنچا تو اسکے پینتیس سے چالیس سیکنڈز ضائع ہو چکے تھے اور آخری تھرو جلدی میں پھینکی گئی،اگر کوچ فیاض بخاری کی توجہ اپنے کھلاڑی پہ ہوتی تو حالات اس سے بہتر ہوتے۔۔۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اس بات کی تحقیقات کی جائیں گی اور کیا کوچ سے پوچھا جائے گا کہ وہ مقابلے کے دوران فون کیوں استعمال کرتے رہے؟؟؟یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کوچ اولمپک ویلج کے قواعد و ضوابط کی بھی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں، کیا اس بارے بھی ان سے پوچھا جائے گا؟۔

کیا اب میڈیا اداروں کی جانب سے حکومت پہ پریشر ڈالا جا سکتا ہے کہ موجودہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کی گذشتہ ڈیڑھ دہائی کی کیا پرفارمنس ہے؟کس بنیاد پہ ایسے لوگوں کو بار بار سلیکٹ ہونے دیا جاتا ہے؟ان کی پرفارمنس کو جانچنے کے لئے اور پوچھنے کے لئے کوئی باڈی ہے؟اگر کھیلوں کی ایسوسی ایشنز اور فیڈرشنز کا کوئی نظام نہیں ہوگا کوئی پرفارمنس کا چیک نہیں ہوگا تب تک کچھ بھی نہیں ہو سکتا،اور قوم ایسے ہی میڈلز کے انتظار میں رہے گی۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دونوں کھلاڑیوں کو تھرو کرتے،پوائینٹس ٹیبل،اور ارشد کے گاؤں کا ماحول دیکھا جا سکتا ہے جہاں ایک چنگ چی پہ ٹی وی رکھ کے گاؤں اور آس پاس کے گاؤں کے لوگ مقابلہ دیکھ رہے تھے،کاش ہم کھیلوں کا کوئی نظام بنا سکیں ۔۔

ہمارے کھلاڑی بھی میڈلز جیتیں گے،کاش ہماری ایسوسی ایشنز اور فیڈریشنز میں کوئی پروفیشنل لوگ آجائیں تاکہ ہمارے ہاں بھی پروفیشنل طریقے سے کام ہو۔کاش ہماری حکومتیں اس حوالے سے کوئی ایکشن لے سکیں ،کاش وہ دن آئیں کہ اولمپکس مقابلوں میں جہاں دنیا بھر کے ممالک کے اتھلیٹس حصہ لیتے ہیں وہاں پاک سر زمین شاد باد کی آواز گونجےجس کو سن کے آنکھوں میں پانی آجاتا ہے اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔۔۔

کاش پاکستان میں پھر سے عہدوں کی بجائے کھیلوں سے محبت کرنے والے لوگ آجائیں،کاش ایسا ممکن ہو سکے،پاکستان کی جانب سےاولمپکس میں میڈل کی توقع ماضی میں ہاکی سے رہتی تھی،پاکستان ہاکی ٹیم اولمپکس مقابلوں میں تین دفعہ گولڈ میڈل جیت چکی ہے لیکن اب حال یہ ہے کہ دو ہزار سولہ اور ٹوکیو اولمپکس میں جبکہ دو ہزار چودہ اور دو ہزار اٹھارہ کے عالمی کپ میں پاکستان ہاکی ٹیم کوالیفائی ہی نہیں کر سکی،

پاکستان میں کھیلوں میں ترقی تب ہوگی جب کھیلوں کی ایسوسی ایشنز اور فیڈریشنز میں پروفیشنل اور محنتی لوگ آئیں گے،جو عہدوں کے بجائے کھیلوں اور کھلاڑیوں کو بہتر کرنے میں اپنی جان لگائیں گے۔۔اس کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ حکومت کھیلوں کے متعلق ایک پالیسی بنائے اور اس پہ عمل درآمد کروائے،کھیلوں کے لئے فنڈز جاری جائیں اور وہ فنڈز کھیلوں اور کھلاڑیوں کی ترقی پہ کیسے خرچ ہوتے ہیں اس کا حساب رکھا جائے،کاش ایسا ہو سکے۔۔۔