سپریم کورٹ میں دعا زہرا کیس : بڑی خبر آگئی

کراچی(قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ نے والد مہدی کاظمی کی جانب سے درخواست واپس لینے پر دعا زہرا کیس نمٹا دیا ،عدالت نے ریمارکس دیے اگر16 سال سے کم عمر میں بھی شادی ہو تو نکاح رہتا ہے، شادی کو ختم نہیں کرسکتے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی کے وکیل کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کی واپسی کی استدعا پر درخواست خارج کردی۔عدالت نے مہدی کاظمی کو متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا متعلقہ کیس ہمارے دائرہ کار میں نہیں، میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے لیے مناسب فورم سے رجوع کرسکتے ہیں۔جبران ناصر نے کہا کہ عدالت نے میڈیکل بورڈ سے متعلق فورم سے رجوع کا کہا ہے۔
سماعت کا احوال
اس سے قبل سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں دعا زہرا کیس میں ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی، دعا زہراکے والد مہدی کاظمی عدالت میں پیش ہوئے۔
دعازہرا کے والدین کے وکیل نے جواب میں کہا کہ بچی لاہور میں ہے، جس پر عدالت نے سوال کیا بچی کی ملاقات کرائی گئی؟ آپ کو بچی سے ملنے دیا گیا؟ والد دعا زہرا نے بتایا کہ 5منٹ ملنے دیا گیا چیمبر میں۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا میڈیکل بورڈ بنا، جس پر وکیل نے بتایا کہ نہیں میڈیکل بورڈ نہیں بنا ، سندھ ہائی کورٹ میں بازیابی کی درخواست دائر کی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا آپ کی درخواست پر لڑکی کولایا گیا اور مرضی پوچھ لی گئی، چائلڈ میرج کی بات سمجھ آتی ہے لیکن اغوا سمجھ نہیں آرہا، لڑکی 2عدالتوں میں اپنی مرضی سےجانےکابیان دے چکی ہے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے دعا کا سندھ ہائی کورٹ میں دیا گیا بیان پڑھ کر سنایا اور کہا ہم ان کے والد کا دکھ سمجھ سکتے ہیں، لیکن بچی کے بیانات ہو چکے ہیں، آپ کسی پر الزام نہیں لگا سکتے کہ اس پر زبردستی کی گئی۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیا آپ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو وہاں چیلنج کیا؟وکیل مہدی کاظمی نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ درخواست نمٹا دی گئی، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے ہمیں کیس کی احساسات کا اندازہ ہے مگر جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ غیر قانونی حراست نہیں بنتی، اب آپ کیا چاہتے ہیں، اغوا تو ثابت ہی نہیں ہوتا، سندھ ہائی کورٹ کا دو رکنی کے سامنے دعا کا بیان ہو گیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا دو قانونی نکات ہیں، ایک اغوا اور دوسری کسٹڈی، جسٹس محمد علی مظہر نے بھی ریمارکس دیے کہ شادی کو والد بھی چیلنج نہیں کرسکتا، شادی کی حیثیت کو چیلنج تو صرف لڑکی کر سکتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے دعا زہرا کے والد سے سوال کیا لڑکی اتنے بیانات دے رہی ہے، آپ کو کیا شبہ ہے؟ اگر ملاقات ہوگئی لڑکی نے پھر منع کردیا تو پھر کیا ہوگا؟ لڑکیاں عدالت میں بیان دے دیں تو پھر کیا ہو سکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا آپ گارڈین کا کیس سیشن عدالت میں دائر کر سکتے ہیں، ہراسانی اور اغوا کا کیس تو نہیں بنتا،اگر 16سال سے کم عمر میں بھی شادی ہو تو نکاح رہتا ہے، نکاح تو آپ ختم نہیں کر سکتے، سندھ کے قانون کے تحت بھی نکاح ختم نہیں ہوتا۔جسٹس سجاد علی شاہ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ وہ بچی ہے گائے، بھینس، بکری تو نہیں، اگر مرضی سے شادی کرلی تو اب کیا کریں گے، آپ سے پورے دن کے لیے ملاقات کرا سکتے ہیں، ہم بچی سے زبردستی نہیں کر سکتے۔
عدالت نے والدمہدی کاظمی سے مکالمہ میں پوچھا آپ چاہتے کیا ہیں؟ جس پر والد نے کہا ہمارے ہاں ولی کے بغیر شادی نہیں ہوتی ، بھلے سے بچی ملاقات کے بعد انکار کرے، میرا مؤقف ہوگا بیٹی میرے حوالے کریں۔جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا باتیں چل رہی ہیں، کہ آپ کا مسلک اور ان کا مسلک اور ہے، ملاقات کے بعد بھی بچی نہ مانی تو کیا کر لیں گے۔بعد ازاں دعا زہرا کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔