درآمدی سولر پینل کی آڑ میں منی لانڈرنگ کی نشاندہی کرنیوالے تحقیقاتی افسران کو دھمکیاں
کراچی(قدرت روزنامہ) درآمدی سولر پینل کی آڑ میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی نشاندہی اور تحقیقات کرنے والے ادارے ڈائریکٹوریٹ پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کسٹمز کو ملوث عناصر کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا ہے۔
اس بات کا انکشاف ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے ممبر کسٹمز آپریشنز ایف بی آر کو ارسال کردہ رپورٹ میں کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سولر پینل کی آڑ میں اربوں روپے مالیت کی منی لانڈرنگ اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران سٹی کورٹ کراچی میں پی سی اے ساؤتھ کے حکام پر ناکام حملہ کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 16ارب روپے کے منی لانڈرنگ اسکینڈل میں ملوث 12 فراڈ درآمد کنندگان کے خلاف درج مقدمہ میں شامل ایک درآمدکنندہ میسرز ERMI FRESH کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج ساؤتھ کراچی کو شکایت درج کرائی گئی جس کے بعد عدالت کے احاطے میں ہی پی سی اے افسران پر جسمانی حملے کی کوشش کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ میں ملوث مذکورہ کمپنی کے نمائندے فرحان خالد نے قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست کی جو وفاقی حکومت کی سبز جی پی 6369 نمبر پلیٹ کی حامل گاڑی میں سوار ہوکر کسٹم کورٹ پہنچا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی او کے استفسار پر جی پی رجسٹریشن نمبر سندھ ہائی کورٹ سے منسوب کیا گیا جو بعدازاں غلط بیانی ثابت ہوئی کیونکہ جی پی نمبر پلیٹ کی گاڑیاں وفاقی حکومتی اداروں کے زیر استعمال ہوتی ہیں،
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میسرز ارمی فریش کے مالک نے موقع پر ہی ویڈیو بیان بھی ریکارڈ کرایا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایجنٹ وسیم تنولی (اصل نام محمد پرویز) نے ان کی کمپنی کے نام پر اس کی اجازت کے بغیر دھوکہ دہی کی منظوری دی۔ میسرز ارمی فریش کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے پی سی اے ٹیم پر تصاویر اور ویڈیو ریکارڈنگ کو ڈیلیٹ کرنے کے لیے دباو ڈالا گیا اور دھمکیاں دی گئیں، تاہم PCA ٹیم دھمکیوں کے سامنے ڈٹ کر اپنے موقف پر قائم رہی۔
رپورٹ کے مطابق جوابی کارروائی میں میسرز ارمی فریش نے اپنے وکیل کے ساتھ مل کر پی سی اے کے تفتیشی افسر سید غضنفر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر سلطان اورنگزیب کے خلاف ایڈیشنل سیشن جج جنوبی کراچی کی عدالت میں جعلی شکایت بھی درج کرائی۔ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے سماعت کے دوران 50 سے 60وکلا کی جانب سے پی سی اے ٹیم پر منظم انداز سے حملہ آور ہونے سے سٹی کورٹ کراچی میں کمرہ عدالت میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا۔ حملہ آوروں کا ہدف انویسٹیگیشن افسر کا موبائل فون حاصل کرکے GP نمبر پلیٹ کی حامل گاڑی کی تصاویر اور ویڈیو بیان کے مجرمانہ شواہد کو مٹانا تھا تاہم کسٹم کے پراسیکیوٹر اور ایڈیشنل سیشن جج کی مداخلت سے وکلا منتشر ہوئے۔