عدت نکاح کیس: بشریٰ بی بی کی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کیخلاف درخواست پر اعتراضات دور کرنے کی ہدایت


اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے کیس کی سماعت 12 اگست تک ملتوی کر دی
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں بری ہونے کے باوجود رہا نہ کرنے پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف درخواست پر اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی عدت کیس میں بری ہونے کے باوجود رہا نہ کرنے پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف درخواست پر سماعت کی، بشریٰ بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست پر اعتراضات لگے ہیں، جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ بشریٰ بی بی کو عدت نکاح کیس میں بری ہونے پررہا نہیں کیا گیا، انہیں جیل میں دھکے دیے گئے اور تشدد بھی کیا گیا۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ آپ کی پہلے اس طرح کی ایک اور درخواست زیر التواء ہے، جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ درخواست چیف جسٹس کے پاس ہے، اس میں ہم نے مقدمات کی تفصیل فراہمی کی استدعا کی ہے۔بعدازاں عدالت عالیہ نے درخواست پر لگے اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12 اگست تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ 13 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے ان کی7،7سال قیدکی سزائیں معطل کردی تھیں۔
عدت نکاح کیس کے اندراج کا پسِ منظر
واضح رہے کہ گزشتہ سال 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔
خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔
خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔
انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔ درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔
خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔